Friday 11 October 2013

استعارے کابھید

استعارہ کیا ہے اورادبی اظہار کے لیے کیوں ضروری ہے؟اس سوال سے قبل یہ پوچھنا چاہیے کہ زبان کیا ہے، اور یہ ہماری اساسی ضرورت کیوں ہے؟اس کا معاشرتی تفاعل کیا ہے؟کیا زبان محض اصوات کا نام ہے؟اگر نہیں تو کیوں؟لفظ اور معنی میں کیا رشتہ ہے؟لسانی نظام کی تشکیل ،ترتیب اور ارتقا سے پہلے ترسیل کے مختلف عوامل کیا تھے؟جذبات کیا ہیں؟احساسات کیا ہیں؟ادراکِ معنی کے پیمانے کیا ہیں؟ادراک، تصوراورتخیل میں فرق کیاہے؟معنی کے منابع تک رسائی ممکن ہے یا نہیں؟معنی آفرینی اور معنی خیزی۔۔۔چہ معنی دارد؟
مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
بات تو محض ایک استعارے کی تھی۔اتنے سوالات کیوں کر پیدا ہوگئے؟اس کا مطلب استعارہ کوئی معمولی شے نہیں۔اچھا،زندگی کیا ہے؟زندگی کے بارے میں شاعروں کے بہت سے اشعار اور فلسفیوں کے اقوال ہیں۔بڑے بڑے مفکرین اس کا سراغ لگانے میں رہ گئے۔نہ جا نے کتنے ذہین ترین دماغ توازن کھو بیٹھے۔کوئی چھور نہیں ملا۔جواب تو ایک جملے میں ہے:
زندگی کیا ہے؟
زندگی ایک استعارہ ہے۔
روشنی کیا ہے؟تاریکی کیا ہے؟سچ کیا ہے؟جھوٹ کیا ہے؟آگ،ہوا،پانی،مٹی۔۔۔یہ سب استعارے ہیں۔’’ابتدا میں لفظ تھا،اور لفظ ہی خدا ہے۔‘‘یعنی’ لفظ‘ بھی استعارہ ہے۔[۔۔۔’’شاید لفظ ناستک نہیں ہوتے۔۔۔ہاں شاید۔۔۔لیکن بھیڑیے،اس کی پوترتا کو نوچ کر کیسے خوش ہوتے ہیں۔۔۔۔‘‘ (1)]تو کیا استعارے سے نجات ممکن نہیں۔کچھ لوگوں کا تو دعویٰ ہے کہ استعارے کی موت ہو چکی ہے۔بیانیہ کی واپسی ہو گئی ہے۔تجریدی شاعری اور کہانیوں کا زمانہ اب ختم ہوا۔وہ ساٹھ اور اس کے بعدکی دہائی تھی۔یہ اَسی (80ء)کے بعد کا ادب ہے۔اول تو یہ میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ تجرید سے اتنی چڑ کیوں ؟علامت سے خوف کیسا ؟استعارے کا نام سنتے ہی جی بیٹھنے کیوں لگتا ہے؟استعارہ کوئی بھوت یا سایۂ مکروہ تو نہیں؟میں تو اس بات پر حیران ہوں کہ بیانیہ گُم کب ہوا تھا،اور استعارے کی موت ہوچکی ہے، تو ہم زندہ کیوں ہیں۔۔۔؟میں اس دن سے خوف زدہ ہوں،جب انسان سے اس کی سوچنے کی صلاحیت بھی چھین لی جائے گی۔کسی جماعت کا فکری نظام وائرس زدہ ہوجائے گا۔کسی فرد کی قوتِ فکر ہائی جیک کرلی جائے گی۔اگر ایسا ہوا تو استعارہ ہمیشہ کے لیے موت کی آغوش میں خاموش ہوجائے گا۔استعارے کی موت اس دنیا کا بدترین سانحہ ہوگا۔
نطشے(Friedrich Nietzsche)نے خدا کی موت کا اعلان کیا تھا۔موت نہ کبھی پوچھ کر آتی ہے اورنہ اس کی آمدکااشتہار کیاجاتاہے۔مجھے لگتا ہے کہ خدا کی موت ،استعارے کی موت ہے۔ نطشے کی نفی نے استعارے کو حیات بخشی۔اس نے استعارے کی روح کو پالیا تھا،کہ اس کی حیات اور استعارے میں فرق ہی نہ رہا۔یہی وجہ ہے کہ وہ پاگل ہو گیااور زندگی کے آخری گیارہ سال(1889-1900)اس نے عالم جنون میں گزارے۔وہ استعارے کی تاب نہ لا سکا۔اس کی موت ہو گئی:
اِس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری
تنہا پسِ زنداں،کبھی رسوا سرِ بازار
استعارہ تو رسوائی کا سامان ہے۔پھر بازارِ سخن میں اس کی قیمت گراں کیوں ہے؟کیا ہم استعارے کے بغیر نہیں جی سکتے؟صنعتی انقلاب تو کب کا آچکا۔یہ اکیسویں صدی ہے۔کہتے ہیں ،یہ سائنس اور ٹکنا لوجی کا دور ہے۔معروضیت کازمانہ ہے۔سوچنے کا نہیں،کرگزرنے کا عہد ہے۔۔۔’’دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا‘‘۔۔۔۔اس دوڑ بھاگ میں کوئی پیچھے مڑ کر کیوں دیکھے؟چاندپرکمندیں ڈالی جاچکی ہیں۔اس نسل کو اس پر آشیانہ بناناہے۔سائنس کی رسائی نے اس کے رومانی چہرے سے نقاب ہٹادیا ہے۔توکیا چاند اب روٹی کا استعارہ نہیں بن سکتا؟اسے محبوب کی صورت سے تعبیر نہیں کرسکتے؟بچپن میں ہم نے سنا تھا کہ وہاں کوئی بڑھیا رہتی ہے۔کیا اس کا سراغ نہیں مل سکتا؟کیا چندا ماماکارومان گُم ہوگیا؟عید کا چاند اب اونچے ٹیلوں سے نہیں،جہاز اور دور بین کی مدد سے دیکھ لیا جاتا ہے۔کیا اب بادلوں میں گھوڑے کی رتھ نظر نہیں آتی؟کیا وہاں شیراورہاتھی چھپ کر نہیں رہتے؟ہاں یہ سچ ہے ،ستارے اب مقدر کا فیصلہ نہیں کرتے!۔ہم فطرت سے جتنے قریب ہوتے جارہے ہیں،اس کا حسن ماند پڑتا جارہا ہے۔نئی صدی کے ساتھ ہم ایک نئے عہد میں داخل ہو چکے ہیں ۔اب نئی قدروں کا سامنا ہے۔اس عہد میں خارجی حقیقت،قبولیت کا نیا باب رقم کررہی ہے۔پھر بھی حقیقت اور مجاز میں سیکڑوں پردے حائل ہیں۔کیوں۔۔۔؟آج کے مادی ماحول میں تخیل کی پرورش اور تہذیب نہایت مشکل ہے۔تاجرانہ ذہن نے ادب کو بھی خرید و فروخت کا ذریعہ بنالیا ہے۔یہ دنیا ایٹم بم میں، آدمی کے اندر چھپے ہوئے حیوان کی سفاکی دیکھ چکی ہے۔چہروں کے سیلاب میں ایک چہرے پر کئی چہرے پڑے ہیں۔تجارتی یلغار نے ذہنِ انسانی کو مشین بننے پر مجبور کردیا ہے۔مشین استعارہ خلق نہیں کرسکتی۔مشین کمانڈ دینے پر مصرعے اُگل سکتی ہے،شعر نہیں کہہ سکتی۔آدمی جذبے کا اسیر ہے۔اسے جب ٹھیس لگتی ہے تو وہ اپنے اندر اترتا ہے۔اس کے اندر کی دنیا آباد ہوتی ہے۔اس کی سوچ اسے گہرائی میں لے جاتی ہے۔وہ خود کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے۔اس عمل میں اسے تجرید کی فصیلیں/ سرحدیں پار کرنی ہیں۔یہ استعاروں کی دنیا ہے۔انتظار حسین نے شاید اسی موقعے کے لیے کہا تھا۔۔۔’’ہمارے اندر ایک تاریک براعظم سانس لے رہا ہے۔‘‘ (2)
ہر خیال Abstractہوتا ہے۔ادراک یقین میں بدلتا ہے۔یقین اور خیال میں تصادم نہیں ہوتا۔آدمی کو تخیلات سے مفر نہیں۔زبان تخیل کے احضار اور اظہارکا آلۂ کار ہے۔خیال نہ صرف عطیۂ فطرت،بلکہ عجیب ترین شے ہے، جو خارجی اورداخلی دنیا میں رابطہ پیدا کرتاہے۔ہر خیال کسی نہ کسی فاعل کا محتاج ہے۔منطقی بیان اور خیال میں بعدالمشرقین ہے۔منطق کو استعارے سے کوئی علاقہ نہیں۔استعارہ تراشنا خیال کا مقدر ہے:
مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا
خیال ڈھونڈتا رہتا ہے استعارہ کوئی 
(عرفان صدیقی)
استعارے کی مہیمارومانی کیف سے معمور ہے۔یہ وہ شے ہے جوزندگی کونئے معنی عطاکرتی ہے۔خیال نامیاتی حقیقت ہے۔اس کے مختلف تلازمے ہیں۔احساس خیال کا روپ دھارتاہے۔ہرخیال بذاتِ خود غیر مادی ہے۔ اس لیے کہ اسے ہم نہ دیکھ سکتے ہیں،نہ سن سکتے ہیں،نہ چکھ سکتے ہیں،نہ سونگھ سکتے ہیں اور نہ ہی چھو سکتے ہیں۔خیال آزاد ہوتا ہے۔شاعری لفظوں سے نہیں،بلکہ تخیل،احساس اور جذبے سے بنتی ہے۔افلاطون ان تینوں چیزوں پرعقل اور منطق کو ترجیح دیتا ہے۔اس نے اپنی مثالی’ جمہوریہ‘ سے اسی لیے شاعروں کونکال باہر کیا تھاکہ وہ جذبے کے اسیر ہیں اور اسی کی تصویر کشی کرتے ہیں۔اس نے شاعرپرفلسفی کو اسی لیے ترجیح دی کہ وہ شاعری کو فلسفے سے کم تر سمجھتا ہے۔اسی بنیادپراس نے کلیہ تراشاکہ شاعری اورفلسفے میں ازلی مخاصمت ہے۔فلسفے کی بنیاد عقل پر ہے،جوانسانی ذہن کی اعلیٰ ترین صفت ہے،جبکہ شاعری جذبات کی تصویر ہے۔افلاطون کے بقول،جذبہ انسان کو صالح بنانے کے بجائے اس کے ذہن کو بھڑکاتاہے۔اس لیے یہ عقل کے لیے مضرہے۔شاعری جذبات کی پرورش کرتی ہے،حالاں کہ اس کا کام ان پر قابوپانا اور،روک لگاناتھا۔یعنی جذبے کو حکمراں ہونے کے بجائے محکوم ہونا چاہیے۔شاعری احساس کو تقویت بخشتی ہے اور ادراک کو معطل کرتی ہے۔ذی عقل، غوروفکر کرتا ہے،جذبات میں بہہ نہیں جاتا۔الہامی کیفیت یا وجدان پر شاعر کا قبضہ نہیں ہوتا۔اس لیے اس کی رہبری قبول کرنا حماقت ہے۔’’شاعر کبھی پیغمبر بن جاتا ہے،کبھی پاگل، اوراس کی شخصیت ان کے درمیان معلق رہتی ہے۔‘‘(3)افلاطون یہ بھی کہتا ہے کہ شاعر نقال ہے ۔وہ نقل کی نقل اتارتا ہے۔گویااستعارہ بھی ایک نوع کی نقل ہوا،کیوں کہ یہ شاعری کا ناگزیر حصہ ہے۔افلاطونIdeasکوسچائی سے تعبیر کرتا ہے۔یعنی ہرIdea(عین/جوہر)وہ بنیادی/حقیقی اورلافانی ساخت ہے،جس کی تمام چیزیں نقل ہیں،اورنقل کبھی اصل کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔اس کے مطابق دنیا میں جتنی چیزیں موجود ہیں،وہ مادی ہیں اورمادے کی حیثیت ثانوی ہے۔Ideasزمان و مکان سے ماورا،اورغیرفانی ہیں۔یہ سچے علم ہیں جن کی بنیاد صداقت پر ہے ،اورصداقت اس روح سے ہم رشتہ ہے،جولافانی ہے۔ریاست مادی اور فانی خیالات سے نہیں چلائی جا سکتی۔افلاطون کے مطابق دنیا میں ایک ہی قبیل کی کئی اشیاپائی جاتی ہیں۔ان سب میں تھوڑابہت فرق ہے۔اِس سے اُس نے نتیجہ اخذ کیا کہ ہرقبیل کی کوئی ایک شے توایسی ہونی چاہیے،جوبہترین اورکامل ہو،یعنی اس سے برتراس قسم کی کوئی چیز نہ ہوسکتی ہو۔اس کے مطابق یہ آئیڈیل یا مثالی چیز/نوع عالمِ اعیان/مثال میں موجود ہے۔یعنی’’عالمِ مثال میں ایک مثالی انسان،ایک مثالی گھوڑا،ایک مثالی کرسی(علیٰ ہذالقیاس)موجود ہے۔دنیا میں موجود کوئی انسان،گھوڑایاکرسی،اپنی ’مثال‘ سے بہتر نہیں۔تمام اشیا اپنی اپنی مثال کی ادھوری نقول ہیں۔‘‘(4)مثالی صورتیں خدا کی تخلیق کردہ ہیں۔اس طریقۂ استدلال کی منطق بظاہر تو بہت توانا ہے،لیکن بباطن اسے منطقی حقیقت سے دور کا بھی علاقہ نہیں۔افلاطون نے اپنی آسانی کے لیے یہ مفروضہ قائم کرلیا کہ دنیا میں جتنی اشیا ہیں ان کی ایک مثالی صورت خدا کی تشکیل کردہ ہے،اوریقیناًمثالی صورت ایک ہی ممکن ہے۔وہ پلنگ/چارپائی کی مثال دیتا ہے۔کلیم الدین احمد کے بقول آپ پلنگ کی جگہ گائے کا تصور کر لیجیے۔اس لیے کہ مصور محض چارپائی کی تصویر نہیں بناتا۔کلیم الدین احمد نے گائے اور پھول کی مثال کے ذریعے نہ صرف افلاطون کے نظریے کی تردید کی،بلکہ اس پہلو سے بھی آگاہ کیا کہ نظریۂ اعیان کے مفروضے کے تحت فلسفیوں کے خیالات بدلتے رہے ہیں۔چوں کہ گائیں کئی طرح کی ہوتی ہیں۔سفید،سیاہ،بھوری،چتکبری،موٹی،دبلی،سینگ دار،بے سینگ وغیرہ۔بھینس اور بیل بھی اسی قبیل میں ہیں۔اگر خدامحض ایک مثالی گائے بنانے پرقادر ہے تواتنی گائیں کہاں سے واردہوئیں۔یعنی یہ گائیں بھی خداکی بنائی ہوئی ہیں۔اس کا مطلب’’بڑھئی کی طرح خدا بھی نقال ہے،جس نے اپنی مثالی شکل کی اتنی مختلف شکلیں بنائیں،اور خدا نے یہ گائیں نہیں بنائیں تو پھرکس نے؟مصورنے تونہیں بنائی ہیں۔کیا خداکے علاوہ کوئی اور بھی خلاق ہے؟کیا خدا کا کوئی نائب ہے جو اس کی مثالی شکلیں بناتا ہے[؟]پھول کو لے لیجیے۔۔۔اگر دنیا کے پھولوں کی فہرست مرتب کی جائے تو ایک موٹی کتاب تیار ہوجائے گی۔بقول افلاطون خدا نے ایک اور صرف ایک مثالی پھول بنایا ہوگا۔پھریہ ہزاروں قسم کے پھول کہاں سے آگئے[؟]یہ نقالی کس نے کی[؟]‘‘(5)افلاطون فلسفی ہے۔اسی لیے وہ شاعری پر فلسفے کی بزرگی تسلیم کرتا ہے۔وہ تعقل پرست ہے۔وہ شاعری اور حقیقت میں کسی تعلق کو قبول نہیں کرتا۔اس کے خیال میں شاعری حقیقت کی نقالی نہیں،بلکہ نقل در نقل ہے۔یہاں دو مستقل موضوعات سامنے آتے ہیں:
183 شاعری۔۔۔وجدان یا حقیقت
183 شعری نقل کی نوعیت
شاعری ان معنوں میں وجدانی ہر گز نہیں کہ شاعر کے پاس اپنی شعری صلاحیت نہیں ہوتی۔اس پر دیوتاؤ ں کا سایہ ہوتا ہے۔جب وہ شعر کہنے پر آتا ہے تو شاعری کی دیوی اسے القا عطا کرتی ہے۔اس پر الہام ہوتا ہے۔شاعر مجنون یا خبطی ہرگزنہیں۔ایسا بالکل نہیں کہ وہ عقل کی نعمت سے محروم ہے۔شاعری تخیلی تجربہ ہے،جس میں فینسی اور قوتِ ممیزہ کو بڑا دخل ہے۔شاعری اور حقیقت،ایسا موضوع ہے جس میں ظاہرپرستوں نے سادہ لوحوں کوخوب الجھایا۔حقیقت کیا ہے؟وہی جو سامنے نظرآتی ہے؟یاپھروہ بھی جہاں تک ہماری رسائی نہیں؟اگر ہر نظر آنے والی شے ہی حقیقت ہے تو خدا ،اس دنیا کا سب سے بڑاجھوٹ ہے۔محسوسات اور جذبوں کا ذکرہی کیا؟حقیقت بھی جدلیاتی شے ہے۔مجازحقیقت کی ضد ہے،لیکن یہ بھی اتنی ہی حقیقی ہے۔یہ دنیا، یازندگی، وہ سکہ ہے جس کا ایک رخ حقیقت کہلاتا ہے اور دوسرا مجاز۔ایک خارجی کہلاتا ہے،دوسرا داخلی۔دنیا کے وجود کے ساتھ دونوں کے وجود کا اثبات ناگزیر ہے۔شاعری اس دنیا کی عظیم حقیقت ہے۔یہ نقل نہیں،تخیلی تجربہ ہے۔شاعری سے نفرت،حماقت ہے۔اسے دور سے سلام مت کیجیے۔اس کے آگے سجدہ ریز ہونے کی ضرورت نہیں۔اس کے تجربے میں خود کو شریک/تحلیل کیجیے۔حقیقت کیا ہے،خود معلوم ہوجائے گا۔حقیقت ڈھنڈورا پیٹنے جیسی کوئی شے نہیں۔جس طرح انقلاب انقلاب چیخنے سے انقلاب نہیں آجاتا،اسی طرح’حقیقت پسندی‘یا’حقیقت نگاری‘کا عنوان قائم کرلینے سے حقیقت کی تفہیم نہیں ہوجاتی۔اس نوع کے عناوین قائم کرنے والے حضرات چھوٹے چھوٹے سامنے کے حقائق کومعراج تصور کرلیتے ہیں،اور اس عظیم حقیقت تک یا تو ان کی نظر نہیں جاتی یاپھر وہ اسے جان بوجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں،جوزندگی کا بھید بھرا گہراداخلی تجربہ ہے۔یہی تجربہ استعارے کی تخلیق کے لیے اساس فراہم کرتاہے۔استعارہ تو مجاز کی ایک شکل ہے۔پھر مجاز، حقیقت کیسے بن سکتا ہے؟یہ سوال انھی حضرات کو پریشان کرتا ہے جو حقیقت کو محض مرغی کا انڈا سمجھتے ہیں۔اس انڈے میں کوئی سانس بھی لے رہا ہے،یہاں تک ان کی نگاہ نہیں جاتی۔ان کی بساط میں حقیقت محض مرغی کا انڈا ہی نہیں،کسان کا ہل بھی ہے،مزدور کی ٹوکری ہے۔موچی کی چپل ہے۔دھوبی کا گدہا ہے۔کسی مظہر کو سیاسی لیڈر بھی دیکھتا ہے۔مذہبی واعظ بھی دیکھتا ہے۔کوئی سماجی مصلح بھی اس کا جائزہ لیتا ہے،لیکن ان کی نظر اور ایک فن کار کے مشاہدے میں کچھ تو فرق ہے،اور پھر مجروحؔ صاحب تو پاگل ہی تھے کہ ایسی بات کہہ دی:
جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے سات چلے
مجروحؔ صاحب کیسے ترقی پسند ہیں؟آگ لگانے کی بات کرتے ہیں۔گھر پھونکنا تو بورژواطبقے کی سازش ہے۔یہ غیرسماجی فعل ہے۔ہمیں سمجھ میں نہیں آتا کہ ’مشعلِ جاں‘کی ترکیب کا مفہوم حقیقت کی کس ڈکشنری میں ملے گا۔پھر میرؔ صاحب نے جو یہ شعر کہا:
دیکھ تو،دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
تو وہ تو یقیناًمجنون ٹھہرے کہ انھیں اتنی سی بات معلوم نہ تھی کہ دھواں دل یا جاں سے نہیں،بلکہ چولھے سے اٹھتا ہے۔[نابغۂ جہاں غالبؔ نے شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے کہاتھا۔۔۔’اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ،انھیں کچھ نہ کہو‘۔۔۔کیوں کہ یہ مے و نغمہ کواندوہ وربا کہتے ہیں۔]اگر تفہیم وتعبیر کی یہی صورت رہی تو استعارہ تو بے موت مر جائے گا۔
واقعہ یہ ہے کہ حقیقت میں تغیر کی صلاحیت ہوتی ہے۔تغیر ارتقا کی کلید ہے۔ادب بھی حقیقت ہے،لیکن حقیقت کوئی آئینہ نہیں کہ کوئی رٹ لگاتا رہے کہ ادب سماج کا آئینہ ہے۔آئینہ جو دیکھتا ہے،وہی دکھاتا ہے،مگر حقیقت محض وہی نہیں،جسے ہماری ظاہری آنکھیں دیکھتی ہیں۔حقیقت ہر جگہ یکساں نہیں رہتی۔دو اور دو چار ہوتے ہیں۔یہ حقیقت ہے،لیکن غالبؔ کا یہ کہنا؛’ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال‘،بھی حقیقت ہے۔’محشر خیال‘کی ترکیب ،ہوسکتا ہے کہ کسی کو نہ سمجھ میں آئے۔ایسے لوگ تو غالبؔ کو یقینادیوانہ کہیں گے کہ وہ خلوت کو بھی انجمن سے تعبیرکرتا ہے۔توحقیقت محض سیاسی،سماجی یا معاشی نہیں ہوتی۔یہ نہ جانے کتنے خلیوں سے مل کر بنی ہے؟یہاں محمد حسن عسکری محلِ نظر ہیں:
سائنس دانوں نے تو اب آکر ایٹم کو توڑنے کا طریقہ دریافت کیا ہے لیکن فن کار پہلے ہی دن سے یہی کر رہا ہے،وہ حقیقت کے جوہروں کو درہم برہم کردیتا ہے تاکہ ایک نئی حقیقت کی تشکیل کر سکے۔(6)
فن کار سماج بے زار نہیں ہوتا۔ وہ مولوی بھی نہیں ہوتاکہ وعظ کرے اور خوف دلائے۔شاعری کے آرٹ کے لیے اخلاقی اور سماجی حقیقت سے کہیں زیادہ حسیاتی حقیقت کی ضرورت پڑتی ہے۔شعری آرٹ محسوسات کی دنیا ہے۔اس لیے فن کارکو اخبار نہیں،دیوار پڑھنا چاہیے۔یہاں خبر سے زیادہ بے خبری کی ضرورت ہے۔اگر کوئی اس بے خبری کو محسوس نہیں کرسکتاتواس پرافسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔بے خبری کو بے تعلقی کے اصول سے تقویت پہنچتی ہے۔شاعری شخصیت کے اظہار کانام ہرگزنہیں۔شاعری تجربے کے اظہارکانام ہے،اورتجربہ اپنی ماہیت کے اعتبار سے نامیاتی اختصاص کا حامل ہے۔یہ سچ ہے کہ شاعر یا کوئی بھی فن کار حساس ہوتا ہے،لیکن وہ ہربات سے متاثر نہیں ہوتا۔اس کے قبول کردہ اثرات اس کے جذبات کو بھڑکاتے ہیں،مگر تخلیق کار کی کامیابی اس میں ہے کہ وہ ان اثرات اور جذبات کے ریلوں میں ترتیب وتہذیب پیدا کرے اور انھیں اپنے تجربے میں تحلیل کرے۔ان اثرات اور شدتِ جذبات کے فوری نتائج میں پیدا ہونے والا ادب غیر مرتب ہوگا۔شاعری بہترین تنظیم کا نام ہے۔اس تنظیم کے لیے تجربے کی تہذیب ضروری ہے اور یہ تہذیب فوری تاثرات سے پیدا نہیں ہوتی۔اس لیے شخصی اور فنی تجربے میں ایک فاصلہ چاہیے۔ولیم ورڈزورتھ نے کہا تھا کہ شاعری ہیجان کے وقت نہیں،بلکہ سکون کے وقت پیدا ہوتی ہے۔اس کا مطلب ہے کہ کسی وقوعے سے فوری طور پر ظاہرہونے والے جذبات میں سنجیدگی، کچھ وقت گزرجانے کے بعدپیدا ہوتی ہے۔بے تعلقی ذہنی اورزمانی فاصلے کانام ہے جو بے خبری کو قوتِ نمو عطا کرتی ہے۔یہی بے خبری اوربے تعلقی استعارے کی تعمیر میں ممد ہوتی ہے،اوریہی وہ شے ہے جو استعارے کو گنجینۂ معنی کا طلسم بناتی ہے۔
اس سلسلۂ کلام کا مقصود یہ ہے کہ شعری حقیقت وہی نہیں،جسے ہم اپنے روزمرہ میں دیکھتے ہیں۔عام حقیقت اور شعری صداقت میں فرق ہے۔اس فرق کو سب سے پہلے ارسطو نے بیان کیا۔جب اس نے بوطیقا لکھی تو زبان کے مجازی پہلو پر بھی اظہار خیال کیا۔اس طور استعارے کی ماہیت پر سب سے پہلے ارسطو نے قلم اٹھایااور اسے شاعری کا حسن قرار دیا۔نقل والی بحث میں شاعری کادفاع کرتے ہوئے اس نے استعارے کو جواز عطاکیا۔اس کا تصورِ استعارہ شرح وبسط کا متقاضی ہے۔ اس سے قبل ہم تھوڑی دیر کے لیے پلٹیں گے۔اس لیے کہ ابھی افلاطون کے ضمن میں جو سوالات قائم ہوئے تھے،ان پر گفتگو مکمل نہیں ہوئی ۔عام صداقت اور شعری صداقتوں میں انفراد کے ساتھ اس بات کا بھی اعتراف ضروری ہے کہ شاعری اندر کی آواز کانام ہے۔یہ داخلی دنیا بڑی پراسرار ہے کہ اس سے مصاحبے کے لیے ادراک سے کہیں زیادہ وجدان کی ضرورت ہے۔ وجدان کوئی آسمانی شے نہیں،اس کا خمیر خارج و داخل کے طویل تصادم سے اٹھا ہے۔یہ اس انسان کا ورثہ ہے جس نے پہلی دفعہ خود کو تنہا محسوس کیا۔یہی احساس،ناتمامی اور غیراطمینانی کی صورت، نیرنگِ خیال کا روپ دھارکر تخلیق کی دنیا کا کولمبس بن جاتا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ یہ دنیا اقبال کے اس مصرعے کی تعبیر ہے۔۔۔’کہ آرہی ہے دمادم صداے کن فیکون‘۔صداے کن فیکون کے اس شورِ مسلسل میں کسی بھید کے کسی ایک جز کو بھی پالینا، یااپنے بھیتر اس کا احساس جگالینا، لطیف تجربہ ہے۔اس تجربے کو رومانی اور جمالیاتی کیفیات سے عمیق تعلق ہے۔یہ تجربہ انقباض کے مراحل سے گزر کر انبساط کے احاطے میں داخل ہوتا ہے۔
افلاطون شاعروں کو اس لیے مطعون ٹھہراتاہے کہ وہ جذبات کی پرورش کرتے ہیں،لیکن مسئلہ فقط جذبے کا نہیں۔مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کے مطابق شاعرآسمانی/الہامی زبان استعمال کرتا ہے،کیوں کہ اس کے توسط سے کوئی اور(شاعری کی دیوی یا خدا) کلام کرتا ہے۔تومعاملہ محض نقل کی نقل کا نہیں رہ گیا۔ایک بڑا حملہ زبان پر بھی ہوا۔اب سوال یہ ہے کہ کیا استعارہ بھی نقل ہے؟یہاں افلاطون کو شدید جھٹکا لگتا ہے۔شیرکوہم کسی بہادر شخص کا استعارہ مان لیتے ہیں،مگرجانور کی صفت کو انسان کی صفت سے ہم آہنگ کرناافلاطون کی شریعت میں جائز نہیں،کیوں کہ انسان کو جانور بتانا غیرعقلی روش ہے۔اس طرح افلاطون کے ہاں استعارہ راندۂ درگاہ ٹھہرا۔اگرہستی کوسراب یالب کو گلاب کی پنکھڑی سے تعبیر کرنا غیرعقلی رویہ ہے اورچرخ یاآسمان کہہ کر زمانہ مراد لیناغیرحقیقی بیان ہے تواظہار کی سلطنت میں استعارے کی بقاناممکن ہے۔اس لیے ،سچائی یہ ہے جو مارسٹن مورس(Marston Morse)کہتا ہے۔۔۔شاعری میں عقل مالکہ نہیں،بلکہ خادمہ ہوتی ہے۔(7)افلاطون نے شاعری کو کم ترکیوں جانا،اس کی وجہ بیان کی جاچکی ہے۔نچوڑ یہ ہے کہ وہ شاعری کی ماہیت کو صحیح طور پر سمجھ نہ سکا۔کچھ حدتک اس کا ازالہ اس کے شاگرد ارسطو نے کیا۔یونان کی تثلیثِ فلاسفہ میں ارسطو اہم ترین سنگ میل ہے۔اس نے فلسفہ اور ادب سے متعلق بعض نہایت بنیادی سوالات اٹھائے۔اس نے افلاطون کو کئی سطحوں پر رد کیا۔اس نے شاعری کو نقل در نقل کے بجائے محض نقل کہااور اس کے لیے Mimesisکالفظ استعمال کیا۔نقل کو بھی اس نے واقعیت/امکانی نمائندگی سے تعبیر کیا،جس کی بنیاد پر یہ عام سطح سے بلند ہوگئی۔جذبات کے دفاع میں اس نے تزکیۂ نفس) (Katharsisکی اصطلاح استعمال کی،جس کا کام فاسدخیالات اور مضرجذبات کی اصلاح ہے،نہ کہ جذبات کی پرورش۔زبان کے استعاراتی پہلو پر بھی روشنی ڈالی۔یہاں شاعری کی ماہیت کی تفہیم کے ساتھ مباحث کے کئی در کھلتے ہیں۔کئی سلسلے قائم ہوتے ہیں۔ ارسطونے’Poetics‘کے25ویں باب میں اظہار کے بنیادی پہلوؤں پرتوجہ دلاتے ہوئے تین اہم وسائل کو نشان زد کیاہے اور ان کی تفہیم بھی تین حصوں میں کی ہے:
(1)The poet being an imitator just like the painter or other maker of likenesses, he must necessarily in all instances represent things in one or other of three aspects, either as they were or are, or as they are said or thought to be or to have been, or as they ought to be.
(2)All this he does in language, with an admixture, it may be, of strange words and metaphors, as also of the various modified forms of words, since the use of these is conceded in poetry.
(3)It is to be remembered, too, that there is not the same kind of correctness in poetry as in politics, or indeed any other art.(8)
مذکورہ خیالات کی بنیاد نظریۂ واقعیت ہے۔ارسطو نے شعری نقل کو انسانی اعمال کی نقل بتایا ہے۔یہ اعمال محض اعضا کی حرکات کانام ہرگزنہیں،بلکہ اس تحرک کانام ہیں جس سے زندگی عبارت ہے۔اسی تحرک کی بنا پراس نے Mimesisکو من وعن نقل قرار نہیں دیا۔اس تحرک میں واقعاتی/امکانی صورتِ حال کاادراک استعارے کی تخلیق کا سرچشمہ ہے۔مندرجہ بالابیانات میں پہلاحصہ اس امر پر مشتمل ہے کہ نقل کے تین ذرائع ہیں۔یعنی ان تینوں میں سے کوئی ایک طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ایک تو یہ کہ اشیا،جیسی کہ وہ ہیں یاتھیں۔دوم یہ کہ جیسی وہ بتائی یاسمجھی جاتی ہیں۔سوم یہ کہ انھیں جیساہوناچاہیے۔تیسراذریعہ(یعنی اشیا کو جیسا ہونا چاہیے)تخلیقی ادب کی کنجی ہے۔چوں کہ اظہار کا وسیلہ زبان ہے،اس لیے اس تیسرے پہلو میں لسانی آزادی جائز ہے۔یہاں زبان کے مجازی پہلوؤں کاپوراپورا،استعمال کیاجاسکتاہے۔غیرمانوس الفاظ،استعارہ،کنایہ،تشبیہ،تمثیل،مبالغہ،پیکراورعلامت تراشی یادیگر لسانی تغیر و تبدل کو بروئے کارلایاجاسکتاہے۔ان کے اطلاق اور صحت کا فیصلہ مقتضاے فن پر ہے۔گھوڑا،ایک جانور ہے۔اسے لوگ چوپایہ بتاتے ہیں۔یعنی اس کے دوپیرآگے اور دوپیچھے کی طرف ہوتے ہیں۔اگراس کے چاروں پیرہوامیں معلق ہوںیااس کے چاروں پیرآگے کی طرف ہوں تویہ مقتضاے فن کے لحاظ سے غلط نہیں ہوگا۔سائنس اور طب میں یہ عیب/غلطی سمجھاجائے گا،جبکہ ادب میں تخیل کوآزادی ہے کہ وہ اشیا میں تغیروتبدل پیدا کرسکے۔یہاں تخلیق کارکے ذہن میں یہ نکتہ ہوتا ہے کہ فن کے نقطۂ نظر سے اشیا ایسی بھی ہوسکتی ہیں۔ارسطونے گھوڑے کے ساتھ ہرن کی بھی مثال دی ہے۔ہرن کی سینگ نہیں ہوتی،لیکن کسی تخلیق میں اس کے سینگیں نکل آئی ہوں تو یہ فنی غلطی اس وقت تک نہیں قرار دی جاسکتی ،جب تک کہ یہ اقتضاے فن کے خلاف نہ ہو۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تخلیق کے لیے کوئی ضروری نہیں کہ وہ من وعن نقل ہو۔اگرتخلیق ہوبہونقل ہوتی توہرن کی سینگ دار تصویرممکن ہی نہ تھی اورگھوڑے کے چاروں پیروں کے آگے کی طرف ہونے کا سوال بھی پیدانہ ہوتا۔
استعارہ ناممکن کو ممکن بنانے کا نام ہے۔خارجی یاروزمرہ کی دنیا میں کچھ کہہ کرکچھ مراد نہیں لی جاسکتی۔یہ استعاراتی دنیا میں ممکن ہے۔سامنے کی حقیقت میں ہم بڑھاپے کوشام نہیں کہہ سکتے۔اگر ہمیں کسی کو یہ کہنا ہو کہ یہ آپ کا بڑھاپا ہے۔اس کی جگہ اگر ہم یہ کہیں کہ یہ آپ کی شام ہے تو معنی کہاں سے کہاں منتقل ہوگیا۔حالاں کہ بڑھاپا زندگی کی شام ہی تو ہے۔گھوڑے اورہرن کی مثال ابھی ہمارے سامنے ہے۔اس لیے کہاجاسکتا ہے کہ استعارہ تخیل کے گھوڑے دوڑانے کانام ہے۔تخیل کیا ہے اور اس کا استعارے سے کیا تعلق ہے؟بدیہی حقیقت ہے کہ ادبی تخلیق تخیل کے بغیر ممکن ہی نہیں،یعنی استعارہ بھی تخیل کا محتاج ہے۔تخیل حاصل شدہ مواد میں نظم وترتیب پیدا کرنے کانام ہے۔کولرج تخیل کو فن پارے کی روح قرار دیتا ہے۔حالی تخیل کی تعریف میں لکھتے ہیں:
وہ ایک ایسی قوت ہے کہ معلومات کا ذخیرہ جو تجزیہ یا مشاہدہ کے ذریعہ سے ذہن میں پہلے سے مہیا ہوتا ہے یہ اس کو مکرر ترتیب دے کر ایک نئی صورت بخشتی ہے۔(9)
کولرج اسی کو ثانوی تخیل (Secondary Imagination) سے موسوم کرتا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:
It [Secondary Imagniation] dissolves, diffuses, dissipates, in order to recreate.(P:202,CH-XIII,Vol-I)/(10)
مقدمہ سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
یہ وہ طاقت ہے جو شاعر کو وقت اور زمانہ کی قید سے آزاد کرتی ہے۔ اور ماضی و استقبال اس کے لیے زمانہ حال میں کھینچ لاتی ہے۔ وہ آدم اور جنت کی سرگذشت اور حشرو نشر کا بیان اس طرح کرتا ہے گویااس نے تمام واقعات اپنی آنکھ سے دیکھے ہیں۔ اور ہر شخص اس سے ایسا ہی متاثر ہوتا ہے جیسا کہ ایک واقعی بیان سے ہونا چاہیے۔ اس میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ جن اور پری، عنقا اور آب حیواں جیسی فرضی اور معدوم چیزوں کو ایسے معقول اوصاف کے ساتھ متصف کرسکتا ہے کہ ان کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر آتی ہے۔ جو نتیجے وہ نکالتا ہے گووہ منطق کے قاعدوں پر منطبق نہیں ہوتے لیکن جب دل اپنی معمولی حالت سے کسی قدر بلند ہوجاتا ہے تو وہ بالکل ٹھیک معلوم ہوتے ہیں۔(11)
لیکن تخیل کی یہ تعریف ،دراصل قوتِ واہمہ(Fancy)کی ہے۔قوتِ واہمہ یادداشت کا ایک عمل ہے جو کسی ایک نتیجے پر اصرارنہیں کرتا۔یہ الگ بات ہے کہ حالی قوتِ واہمہ اور تخیل میں فرق نہ کر سکے،مگروہ اردو میں پہلے شخص ہیں جنھوں نے ادبی تنقید میں تخیل کوتخلیق کی شرطِ اولین بتایااورشرح وبسط کے ساتھ اس کی ماہیت پر بساط بھر گفتگو کی۔استعارہ تخیل کی ایجاد ہے۔ فینسی استعارے کی تخلیق کی محرک ہے۔یہ وہ قوت ہے جو اشیا میں ربط پیدا کرتی ہے۔یہ قوت انسان کے لیے فطرت کا عظیم عطیہ ہے۔تخیل کے اس ضمن میں تین بنیادی الفاظ کی وضاحت ضروری ہے۔احساس،جذبہ اور تصور۔ان میں اور تخیل میں فرق ہے۔درد کی ٹیس،ہوا کے جھونکے اورآگ کی تپش کومحض محسوس کیا جاسکتا ہے۔غصہ،رحم اور خوف ذہن کی مختلف حالتیں ہیں جن کا تعلق جذبات سے ہے۔نظر سے گزری ہوئی اشیا کی تصویر کوذہن میں لاناتصور ہے۔تخیل میں اختراع کی صفت ہوتی ہے،جبکہ تصور محض حقیقت کاعکس ہے۔اسی لیے تصورکوMimesisاورتخیل کوImaginationکہتے ہیں۔ارسطونےMimesisکی تعریف کو Imagination(اصطلاح استعمال کیے بغیر)سے ملانے کی کوشش کی ہے۔واقعیت یاامکانی صورتِ حال تخیل ہی کے زمرے میں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ارسطو کی تعریف پر آج بھی توجہ دی جاتی ہے۔امکانی صورتِ حال کا رشتہ استعارے سے ہے۔یہی وہ اساس ہے جس پرارسطو نے استعارے کی تعمیر کی۔لونجائنس(Longinus)استعارے کو شاعری کے لیے تزئین کا سامان بتاتا ہے،جبکہ ارسطو نے استعارے کو کلام کا جوہرکہا ہے۔شمس الرحمن فاروقی نے صحیح کہا ہے کہ یہاں’’استعارہ محض ایک تزئینی یاضمنی وصف نہیں بلکہ ایک فلسفیانہ حقیقت بن جاتاہے۔‘‘(12)قوتِ امکان کے تحت یہی تصورِ استعارہ آگے چل کرکولرج اور ورڈزورتھ کے ہاتھوں رومانی تحریک کی بنیاد بنتاہے۔اسی بنیاد پرکولرج نے مغربی تنقید کی تاریخ میں اپنا مشہور نظریۂ تخیل پیش کیااوریہ ثابت کیا کہ شاعری نقل نہیں بلکہ تخیلی تجربہ ہے۔
ارسطو استعارے کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے:
"Metaphor consists in giving the thing a name that belongs to something else."(13)
ترجمہ:تبادلے کے ذریعہ کسی غیرمانوس نام کا اطلاق استعارہ کہلاتاہے۔(14)
استعارے کی مثال میں ارسطوچار جملے تحریر کرتا ہے:
183 میراجہاز یہاں کھڑا ہوا ہے۔
183 سچ ہے کہ اوڈی سیوس کے عمدہ کارنامے دس ہزار ہیں۔
183کانسے کی تلوار نے جان نکال لی۔
183کشتی پانی کو کاٹ رہی تھی۔[بوطیقا،باب:21]
اٹھنا،بیٹھنایاکھڑاہوناجانداروں کی صفت ہے۔لیٹنا،بیٹھنایاکھڑاہوناانسانوں کاکام ہے۔جہاز لنگرانداز ہوتا ہے۔یہاں لنگرانداز ہونے کو کھڑاہوناکہا گیا ہے۔یہ بیان کی خوبصورتی کے لیے استعارے کا استعمال ہے۔اوڈی سیوس کے کارناموں کی تعداد بھی یہاں دس ہزار نہیں۔دس ہزارسے مراد کثرتِ تعداد ہے۔تلوار جان نہیں نکالتی۔اس کاکام کاٹناہے۔اسی طرح کشتی پانی نہیں کاٹ سکتی۔پانی کاٹنا یہاں پانی ہٹانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔بیان کی یہ متبادل صورتیں استعارہ ہیں۔خوبصورت استعارے تراشنا ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔نئے اورنادر استعارے تخلیق کرناکوئی کسی سے نہیں سیکھ سکتا۔اس کاتعلق انسان کی فطری صلاحیتوں سے ہے۔[بوطیقا،باب:22]ارسطو کے اس خیال کو آج تک نہ ردکیا جاسکااور نہ اس میں توسیع ہوسکی۔
زبان کا استعاراتی نظام کیوں کرمرتب ہوا؟اس کا جواب تاریخِ انسانی کے اس اولین عہد سے شروع ہوتا ہے،جب آدمی اشاروں میں گفتگو کیا کرتا تھا۔اشارہ کیا ہے؟اشارہ بھی ایک نوع کا مفروضہ ہے۔ہماری زندگی میں مفروضے کی کیا اہمیت ہے؟مفروضہ مجاز ہے یا حقیقت؟یہ اسی قبیل کا سوال ہے کہ پہلے مرغی یاپہلے انڈا۔نتیجہ یہ ہواکہ آدمی نے فرض کرنا سیکھ لیا۔جب ہم نے اپنے اوپر دیکھاتوفرض کرلیا کہ وہ عرش یا آسمان ہے۔نیچے دیکھا تواسے فرش یا زمین تصور کرلیا،کہ یہ ہمارے لیے بچھائی گئی تھی۔یہی زمین جب اونچی نظرآئی تو اسے پہاڑ کانام دیا۔آبِ رواں کودریا کہہ دیا۔ہرشے کو ہم نے شناخت عطاکی۔مفروضات کا سلسلہ دائمی ہے۔مفروضہ جب روزمرہ کاحصہ بن جاتا ہے تواس کی استعاراتی معنویت کم ہوجاتی ہے۔اس لیے ہرنیا استعارہ انسان کے زندہ ہونے کی علامت ہے۔اس مضمون کے شروعاتی حصے میں ،میں نے نطشے کاحوالہ دیا تھا۔اس کا خیال ہے:
Life would be strictly unthinkable without conceptual fictions such as 'time','space' and 'identity' which we impose upon the world.(15)
ہم نے نہ جنت دیکھی،نہ دوزخ۔پھربھی اس حوالے سے موہوم خیالات خلق کرلیے گئے ہیں۔زندگی میں مفروضہ بارکیسے پاتا ہے؟مفروضے کا اطلاق کیوں ضروری ہے؟Lee Spinksنطشے کے تصورِ استعارہ کی شرح میں لکھتا ہے:
[Nietzsche] broadens his argument by claiming that all of the concepts we employ to represent the 'true' structure of the world۔such as 'space','time',identity','causality' and 'number'۔are metaphors we project on to the world to make it thinkable in human terms.(16)
مفروضہ فکشن ہی تو ہے۔فکشن اس وقت تک بے معنی ہے ،جب تک ہم اسے کسی مفروضے کے تحت بامعنی نہ بنائیں۔ہم بڑی حقیقتوں کو جتناسمجھنے کی کوشش کرتے ہیں،وہ اتنی ہی مبہم کیوں ہوجاتی ہیں،کیوں کہ ہر حقیقت اپنے اندر لامحدود پہلو رکھتی ہے اور یہ لامحدود پہلو ہمیشہ مبہم ہوتا ہے۔فانیؔ زندگی کو نہیں سمجھ پائے تو اسے معمہ/دیوانے کا خواب کہہ دیا۔خلا،وقت،شناخت،تعداد،تجریدی تصورات ہیں۔یہ وہ گہرے اور عظیم استعارے ہیں جن کے بغیر زندگی کی تفہیم ممکن ہی نہیں۔
اردو میں استعارے کی ماہیت پرغوروفکراوراظہارِخیال کارواج عام نہیں۔اب اردو میں تنقید کاکام نظریات کی تفہیم وتعبیر ہے۔آج ایک مبتدی جب تنقید پڑھنایالکھنا شروع کرتا ہے تو اس کے ذہن میں یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ ترقی پسندی کیا ہے؟جدیدیت کیا ہے؟مابعدجدیدیت کی تعریف کیا ہے۔۔۔؟ادب سماج کا آئینہ ہے یا تنقیدِ حیات؟حالاں کہ ادب کی ماہیت کو سمجھے بغیران تصورات کاکیاکام؟ہمارے آج کے ناقد کو لفظ ومعنی کے رشتوں پرغورکرنے کی زحمت نہیں۔وہ متن کے اسرار اجاگر کرنے کے لیے یہ سوال نہیں کرتاکہ سیاق کیا ہے؟معنی کے منابع کیا ہیں؟تشبیہ کی ندرت کس میں ہے؟استعارے کی ماہیت کیا ہے؟علامت کیوں کرخلق ہوتی ہے؟تمثیل کابیان سے کیا تعلق ہے؟ادب میں مبالغہ کیوں ضروری ہے؟نشان،نقوش اورپیکروں کی کیا اہمیت ہے؟آج کاناقداصرار کرتا ہے کہ شاعری میں شعریت ہونی چاہیے،لیکن وہ شعریت کے اسباب اور اس کی محتویات پرگفتگونہیں کرتا۔ہمارے ہاں حالی،شبلی،محمد حسن عسکری،کلیم الدین احمد،شمس الرحمن فاروقی،گوپی چندنارنگ،وارث علوی ،شمیم حنفی اورقاضی افضال حسین جیسے کتنے ناقدین ہیں جوادب کی نظری اساس پرسوچنے،اطلاقی نمونے پیش کرنے اور اس کے امکانات کو ضابطۂ تحریر میں لانے کی ہمت کرتے ہیں۔کچھ لوگ کہیں گے کہ ہم استعارے کی اہمیت کااعتراف کرتے ہیں،لیکن اس جھنجھٹ میں کیوں پڑنے جائیں۔استعارے کا مسئلہ تو اہلِ بلاغت طے کریں،اوراستعارہ ایسی کوئی شے بھی نہیں کہ اس کی تعریف یا تفہیم مشکل ہو۔عروض وبلاغت کی کتابیں استعارے کے باب میں حرفِ آخرکادرجہ رکھتی ہیں۔اگر یہ باتیں صحیح ہیں تو اپنے قارئین کا ذہن اس ’حرفِ آخر‘ کی طرف منتقل کرناچاہوں گا:
استعارہ مجازلغوی ہے[،] یعنی وہ ایسا لفظ ہے کہ جس معنی کے واسطے بنایا گیا ہے[،] اس معنی کے غیرمیں مستعمل ہوا ہے[،] مشابہت کے علاقے سے۔(حدائق البلاغت)/ (17)
حقیقت اور مجاز کے درمیان اگر لگاؤ تشبیہ کاہے توایسے مجاز کواستعارہ کہتے ہیں۔استعارہ میں مشبہ بہ(وہ شے جس سے تشبیہ دیتے ہیں)کوعین مشبہ(وہ شے جس کو تشبیہ دیتے ہیں)قراردیتے ہیں،لیکن کبھی کبھی دونوں کے مناسبات وصفات کاذکر بھی آجاتاہے۔(علم بیان وعلم عروض)/(18)
استعارے کی اس نوع کی تعریفیں،ان کی چنداقسام اور مثالیں اگر’حرفِ آخر‘ ہیں تو یہ مضمون لکھ کر میں نے وقت ضائع کیا۔حالی پاگل تھے کہ[ مقدمہ میں] استعارے پر صفحات سیاہ کیے۔محمدحسن عسکری (استعارے کا خوف)، ممتاز حسین(رسالہ درباب استعارہ)، گوپی چندنارنگ(بیدی کے فن کی استعاراتی اور اساطیری جڑیں)،وارث علوی(استعارہ اورنرالفظ)،شمس الرحمن فاروقی(شعر،غیرشعراورنثر/میر انیس کے ایک مرثیے میں استعارے کانظام/میر کی زبان،روزمرہ یا استعارہ)اورقاضی افضال حسین(میرکی شعری لسانیات) نے اس موضوع پر شایدبیکار ہی قلم اٹھایا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ادب کی اساس پربارباربحث ہو ،تاکہ ہماری بنیاد کھوکھلی نہ ہونے پائے۔ہمیں حالی کاشکرگزارہوناچاہیے کہ اردو میں پہلی بارانھوں نے استعارے کوعام نہج سے ہٹ کردیکھااور یہ احساس دلایا کہ استعارے پراہلِ بلاغت سے کہیں زیادہ اہلِ تنقید کی توجہ چاہیے۔اس لیے کہ استعارے کی تفہیم بندھے ٹکے خطوط پر نہیں ہوسکتی۔چند مثالوں سے اس کاحق ادا نہیں ہوسکتا۔جس طرح زندگی ہرروزنیالباس بدل رہی ہے،اسی طرح استعارہ بھی نئے نئے سیاق میں ظاہر ہورہا ہے۔اس کاہر نیا روپ تنقید کو بحث اور مکالمے کی دعوت دیتا ہے۔حالیؔ لکھتے ہیں:
استعارہ بلاغت کا ایک رکن اعظم ہے اورشاعری کو اس کے ساتھ وہی نسبت ہے جو قالب کوروح کے ساتھ۔کنایہ اور تمثیل کا حال بھی استعارہ ہی کے قریب قریب ہے۔یہ سب چیزیں شعر میں جان ڈالنے والی ہیں جہاں اصل زبان کا قافیہ تنگ ہوجاتا ہے وہاں شاعرانھیں[انھی]کی مدد سے اپنے دل کے جذبات اوردقیق خیالات عمدگی کے ساتھ ادا کرجاتا ہے اور جہاں اس کا اپنا منتر کارگر ہوتانظرنہیں آتا وہاں انھیں[انھی]کے زور سے وہ لوگوں کے دلوں کو تسخیر کرلیتا ہے۔(19)
استعارے کو بلاغت کا رکنِ اعظم کہنااردو میں حالی سے قبل کسی کو نصیب نہ ہوا۔حالی نے یہ بھی کہا کہ استعارے[وغیرہ]سے مدد نہ لی جائے تو شعر شعر نہیں رہتا،بلکہ معمولی بات چیت ہوجاتی ہے۔اس نکتے سے ایک اہم سوال قائم ہوتا ہے۔اگر یہاں بات چیت سے’معمولی‘کوحذف کردیں تو سوال یہ بنتا ہے کہ استعارے کا گفتگو سے کیا علاقہ ہے؟کیا گفتگو استعارے سے عاری ہوتی ہے؟اگرگفتگو بھی استعارے کی حامل ہوتی ہے تو شاعری اور بات چیت میں کیا فرق ہے؟شاعری استعاراتی نظام میں تسلسل کانام ہے۔شاعری میں استعارے کی تہذیب اور تنظیم کابھی خیال رکھنا پڑتا ہے،جبکہ گفتگو میں یہ تسلسل قائم نہیں ہوپاتا۔اسی لیے گفتگو میں وہ گہرائی پیدا نہیں ہوپاتی،جوکسی ادبی تخلیق کا امتیاز ہے۔یہ سچ ہے کہ گفتگو میں بھی استعارے چلے آتے ہیں،لیکن یہ کب ہوتا ہے؟ہم گفتگو میں محاورے استعمال کرتے ہیں۔محاورے کیا ہیں؟یہ کیسے تشکیل پاتے ہیں؟یہ باتیں الگ باب کھولتی ہیں۔تنہالفظ محاورہ نہیں بنتا۔محاورے میں کم از کم دو لفظوں کا اجتماع چاہیے۔’روزروز‘محاورہ ہے۔اگر اس کی جگہ کہاجائے کہ ’دن دن‘مت آیا کرو،توروزروزکامفہوم نہیں بنتا۔اس لیے محاورے میں روایت بننے کی صلاحیت ہونی چاہیے،تاکہ استناد میں مسئلہ نہ ہو۔اکثر محاورے استعاراتی اساس پر تشکیل پاتے ہیں۔وہ محاورے جوافعال پر مبنی ہوتے ہیں،ان میں ایک اسم اور ایک فعل مل کر مجازی مفہوم پیدا کرتا ہے۔مثلاً’’سینہ پھٹ گیا،دل میں چھید پڑگئے،آسمان ٹوٹ پڑا۔تجھ کو کس کی نظر کھا گئی۔‘‘(20)کاغذتوپھٹ سکتا ہے،سینہ نہیں۔مٹی کابرتن توٹوٹ سکتا ہے،آسمان ٹوٹنے والی کوئی شے نہیں۔اس لیے یہ نا ممکنات،استعارے ہیں،اور عسکری صاحب کے بقول ،محاورے محض خوبصورت فقرے نہیں،بلکہ اجتماعی تجربے کے ٹکڑے ہیں۔یہ مربوط معاشرے کی پیداوار ہیں۔
مجازی پہلو محاورے کا ہو یا کسی بھی لفظ کا،یہ معنی خیزی میں اس لیے ممد ہے کہ مجاز کا مطلب ہی ’تجاوزکرنا‘ہے۔استعارہ معنی کو پھیلاتاہے۔استعارے کی ماہیت پرشبلی نے کچھ بنیادی سوالات قائم کیے ہیں:
183استعارے کی حقیقت کیا ہے؟
183یہ کہاں اور کیوں کرکام آتاہے؟
183اس میں ندرت اور لطافت کیوں کرپیدا ہوتی ہے؟
183کس طرح ایک بڑے سے بڑاوسیع خیال اس کے ذریعے سے ایک لفظ میں ادا ہوجاتا ہے؟(21)
شبلی نے یہ سوالات اٹھا کر ذہانت کا ثبوت دیا،لیکن اصطلاحی اور روایتی افہام و تفہیم سے ہٹ کر ان کی فلسفیانہ اساس تلاش کرنے سے وہ قاصر رہے۔محمد حسن عسکری اور ممتاز حسین،یہ دوحضرات ایسے ہیں،جنھوں نے اردو میں حالی کے بعد استعارے کو عام نہج سے گریز کرکے دیکھنے کی کوشش کی۔ان کے لیے استعارہ کوئی صنعت نہیں،جوبیان کے حسن کو چمکادے۔ وہ استعارے میں کائنات کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔اسی لیے ممتاز حسین نے ’انقلابی استعارہ‘کی اصطلاح وضع کی۔استعارے کی رٹی رٹائی تعریف کے حامل حضرات اس استعارے کی تہ تک نہیں پہنچ سکتے۔محمد حسن عسکری کہتے ہیں کہ استعارہ انسان اور کائنات کوایک دوسرے میں مدغم کرنے کا وسیلہ ہے۔یہ انسانی تجربے کی نسوں میں سے رستا ہے۔استعارے سے انحراف زندگی سے انحراف ہے:
اپنے ذہن کے ذریعے آدمی جبلتوں سے بھاگنا چاہتا ہے۔لیکن ذہن کی کمین گاہ میں خود جبلت چھپی ہوئی بیٹھی رہتی ہے۔غرض ہم زبان سے جو فقرہ بھی کہیں اس میں بھولاہوایازبردستی بھلایاہواتجربہ یا پوری عمر کا تجربہ پوشیدہ ہوتا ہے۔یعنی ہمارا ایک ایک فقرہ استعارہ ہوتا ہے۔استعارے سے الگ ’اصل زبان‘کوئی چیز نہیں۔کیوں کہ زبان خود استعارہ ہے۔چونکہ زبان اندرونی تجربے اورخارجی اشیا کے درمیان مناسبت اور مطابقت ڈھونڈنے یا خارجی اشیا کو اندرونی تجربے کا قائم مقام بنانے کی کوشش سے پیدا ہوتی ہے۔اس لیے تقریباًہرلفظ ہی ایک مردہ استعارہ ہے۔اصل زبان یہی ہے۔(22)
عسکری صاحب مردہ استعارے کی بات کرتے ہیں،یعنی زندہ استعارہ بھی کوئی شے ہے۔اصل زبان استعارہ کیوں ہے؟ہم نے ایک رقیق شے کو’پانی‘فرض کرلیا۔مفروضہ استعارے کی کلید ہے،لیکن اس میں بعض رعایتیں/مماثلتیں بھی ہونی چاہئیں۔ہر استعارہ اپنی اساس رکھتا ہے۔روزمرہ /گفتگویااصل زبان میں پانی محض ایک پینے یا پیاس بجھانے والی چیز ہے۔اس میں اجتماعی اتفاق ہے۔یہی پانی جب ادبی تخلیق میں استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد زندگی ہوتی ہے۔یعنی پانی اگر محض پیاس بجھانے والی کوئی شے ہو تو مردہ استعارہ ہے،اور اس سے مراد ’زندگی‘ہوتو زندہ استعارہ ہے۔ہرلفظ ایک مردہ استعارہ ہے۔اس میں زندہ استعارہ بننے کی قوت ہوتی ہے۔گویا ہرلفظ میں ’استعارہ‘ بننے کی صلاحیت پوشیدہ ہے۔شاعر جب کسی لفظ میں روح پھونکتا ہے تو ایک نیا سیاق خلق کرتا ہے۔اس طرح ایک نیا استعارہ وجود میں آتا ہے۔شاعرکی عظمت اس بات میں ہے کہ اسے الفاظ پرکتنی قدرت ہے؟وہ الفاظ کی کتنی گہرائی میں اتر سکتا ہے؟ان کی کتنی تہوں کو دریافت کرسکتا ہے؟اس میں ایک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کی قوت ہے یا نہیں؟اسی طرح کسی شاعر کو پرکھتے وقت یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ وہ کس گروہ یا مکتبۂ فکر سے متاثر ہے؟یہ اتنا اہم نہیں کہ اس کے موضوعات کیا ہیں؟اس کے ہاں سماجی اقدار اور اخلاق کے پیمانے کیا ہیں؟اس کا مطالعہ کتنا ہے؟اصل دیکھنے کی چیز تو یہ ہے کہ اس نے زبان اور شاعری کو کتنے نئے الفاظ دیے؟اس نے کتنے نئے استعارے خلق کیے؟کتنی نئی تشبیہیں تلاش کیں؟کتنی نئی علامتیں وجود میں لائیں؟کتنی نئی ترکیبیں تراشیں؟پرانے استعاروں اور علامتوں میں اس نے کیوں کر روح پھونکی؟کتنے الفاظ اس نے زندہ کیے؟انھی پہلوؤں سے پتا چلتا ہے کہ تک بندی/قافیہ پیمائی اور معنی آفرینی یا تخلیقی وفور میں کیا فرق ہے۔فیضؔ کا شعر ہے:
درِ قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے
تو فیض دل میں ستارے اتر نے لگتے ہیں
’اندھیرے کی مہر‘نئی ترکیب ہے۔یہ رات کا بھی استعارہ ہوسکتی ہے اور مایوسی کا بھی۔یہاں ستارے زندگی کی رمق اور حوصلے کا استعارہ بن گئے ہیں۔منطقی معنی میں دل کے اندرستارے نہیں سماسکتے۔یہ بیان کا حسن ہے۔یہ تخلیقی منطق ہے۔یہی استعارہ ہے۔ہرنیا استعارہ زندگی کا ایک نیا تجربہ ہے۔شاعری تجربے سے بنتی ہے اور تجربہ جب استعارے میں ڈھلتا ہے تو معنی کی دنیا آباد ہوتی ہے۔لفظ و معنی کی کشاکش توازلی ہے۔لفظ ایک سمندر ہے۔اس کے اندر ایک کائنات بند ہے۔لفظ گنجینۂ معنی کا طلسم ہے:
’’گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے
طلسم سانپ کی اس تصویر کو بھی کہتے ہیں،جو خزانوں اور دفینوں پر حفاظت کی خاطر بناتے ہیں۔گویا طلسم اس شعوری کوشش سے عبارت ہے جو خزانوں تک رسائی کو نا ممکن بنادے۔کلام غالب میں معنی کو مخفی رکھنے یا قاری کی رسائی سے محفوظ رکھنے کا طلسم(شعوری کوشش)’’لفظ‘‘ہے کہ یہی معنی تک رسائی کو ناممکن بنادیتا ہے۔‘‘۔۔۔قاضی جمال حسین/(23)
لفظ گنجینۂ معنی کا طلسم کیوں ہے؟اس میں سمندر کی سی گہرائی اور گیرائی کیوں ہے:
سمندر کی تہ میں
سمندر کی سنگین تہ میں
ہے صندوق۔۔۔
صندوق میں ایک ڈبیامیں ڈبیا
میں ڈبیا۔۔۔
میں کتنے معانی کی صبحیں۔۔۔
وہ صبحیں کہ جن پر رسالت کے در بند
اپنی شعاؤں میں جکڑی ہوئی
کتنی سہمی ہوئی!
(یہ صندوق کیوں کرگرا؟
نہ جانے کس نے چرایا؟
ہمارے ہی ہاتھوں سے پھسلا؟
پھسل کرگرا؟
سمندر کی تہ میں۔۔۔مگر کب؟
ہمیشہ سے پہلے
ہمیشہ سے بھی سالہا سال سے پہلے؟)
اور اب تک ہے صندوق کے گرد
لفظوں کی راتوں کا پہرا
۔۔۔وہ لفظوں کی راتیں
جو دیووں کے مانند۔۔۔
پانی کے لسدار دیووں کے مانند!
یہ لفظوں کی راتیں
سمندر کی تہ میں تو بستی نہیں ہیں
مگر اپنے لاریب پہرے کی خاطر
وہیں رینگتی ہیں
شب وروز
صندوق کے چارسورینگتی ہیں
سمندر کی تہ میں!
بہت سوچتا ہوں
کبھی یہ معانی کی پاکیزہ صبحوں کی پریاں
رہائی کی امید میں
اپنے غواص جادو گروں کی
صدائیں سنیں گی؟ [سمندر کی تہ میں/ن۔م۔راشد]/(24)
لفظ مبہم کیوں ہوتا ہے؟معنی ہردم پھسل کیوں جاتا ہے؟ایک پہلو ختم نہیں ہوتاکہ دس حاضر ہوجاتے ہیں۔ماں درگا کی طرح لفظ کے دس ہاتھ ہوتے تو بھی کوئی بات نہ تھی۔اس کے تو سیکڑوں ہاتھ ہیں،اور معنی کی طلسمی انگوٹھی کس ہاتھ کی انگلی میں ہے،کسی کو نہیں معلوم۔ماں درگا مسکرا رہی ہے کہ قاری متن میں تحلیل کیوں نہیں ہوجاتا!!!
استعارہ لفظ کے اسرار دریافت کرنے کانام ہے۔اس دریافت کی بنیاد مشابہتوں پرہے۔فن کار مناسبت پیدا کرنے کے لیے رعایتوں کا استعمال کرتا ہے،جواپنے اندر دوپہلو رکھتی ہے۔لفظی اورمعنوی۔’’رعایت معنوی اکثر براہِ راست استعارہ ہوتی ہے۔رعایت لفظی استعارے کا التباس پیداکرتی ہے۔‘‘(25)تلازمے استعاروں کو قابلِ توضیح بناتے ہیں۔اس لیے رعایتوں کا انکشاف شرحیات میں ایک مستقل باب ہے۔مضمون اور استعارے میں کیا فرق ہے؟دونوں کے مفہوم میں وسعت رعایتوں سے پیدا ہوتی ہے۔یعنی رعایتیں جتنی ہوں گی،تہ داری اتنی ہی آئے گی۔مضمون اور استعارہ،دونوں ایک ہی شے نہیں۔زندگی ایک موضوع ہے۔اس کے کسی ایک ضمن کومضمون کیا جاتا ہے۔استعارہ اس مضمون میں چنگاری بھردیتاہے۔اس میں معنی کا جہان روشن ہوجاتا ہے۔شمس الرحمن فاروقی رقم طرازہیں:
استعارے کے باب میں مغربی مفکرین نے بہت لکھا ہے۔ان کے علی الرغم ہماری شعریات میں استعارہ اتنا اہم نہیں۔استعارے کی جگہ ہمارے یہاں(یعنی سنسکرت شعریات میں بھی اورعربی فارسی شعریات میں بھی)مضمون کو مرکزی مقام حاصل ہے۔(26)
ہمارے یہاں یہ خیال شروع ہی سے عام رہا ہے کہ استعارہ شاعری کا جوہر ہے۔۔۔۔[یہ وہ]طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم ایک ہی معنی کو کئی طریقے سے بیان کرسکتے ہیں۔میر[تقی میر]کازمانہ آتے آتے استعارے کی حیثیت مضمون کے تصور میں اس طرح ضم ہوگئی تھی کہ اس کا الگ سے ذکر بہت کم ہوتا تھا۔(27)
جب مضمون اور استعارہ الگ الگ چیزیں ہیں تو باہم ضم کیوں ہوئے؟ہمارے یہاں جب یہ خیال شروع ہی سے عام رہا ہے کہ استعارہ شاعری کا جوہر ہے تواس کی جگہ مضمون کو مرکزی مقام حاصل کیسے ہوا؟فاروقی صاحب نے اس کی وجہ بیان نہیں کی۔سنسکرت شعریات کا معاملہ عنبر بہرائچی پرچھوڑیے۔اردو شعریات میں استعارعے پر بحث کی صورتِ حال یقیناوہی ہے جوفاروقی صاحب نے بیان کی۔یعنی ہماری اولین تنقید (تذکرے)نظری مباحث سے خالی ہے۔ادب میں ایک ڈسپلن کی حیثیت سے تنقیدکوہم نے مغرب سے مستعار لیا۔ولی کا شعرہے:
راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں
تاقیامت کھلا ہے باب سخن 
یہاں مضمون کی جگہ استعارہ بھی فرض کیا جا سکتا ہے۔ولی نے اس مضمون کو’ استعارہ‘کی اصطلاح میں کیوں نہیں باندھا؟غالب نے شاعری کو معنی آفرینی کہا۔مضمون آفرینی کیوں نہیں کہا؟اس لیے کہ وہ’گنجینۂ معنی کے طلسم‘پرایمان رکھتے ہیں۔مضمون میں یہ طلسم ،استعارہ پیدا کرتا ہے۔بقول محمد حسن عسکری؛[یہ]انسان اورکائنات کوایک دوسرے میں مدغم کرنے کا وسیلہ ہے۔(28)اس وسیلے سے خوف، زندگی سے خوف ہے۔اس وسیلے کی موت، زندگی کی موت ہے۔اس لیے ہماری تنقید کوبھی بیدار ہونا پڑے گا،تاکہ یہ طلسم کہیں گم نہ ہوجائے۔یہ سچ ہے کہ بعض استعارے گھس پٹ کر دم توڑدیتے ہیں۔ان میں عصری معنویت سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔یہ اتنے افسوس کی بات نہیں،جتنا یہ کہ نئے استعاروں کی تخلیق کا سلسلہ موقوف ہوجائے۔استعارہ تجربے کی دبازت کا نشان ہے۔اس لیے تخلیقی سطح پر اس کی توانائی کا اعتراف لازمی ہے۔استعارہ محض شاعری کی جاگیر نہیں،بلکہ ہر تخلیقی ساخت کا خاصہ ہے۔اگر آج کا کوئی ادیب استعارہ استعمال نہیں کرتاتویہ زندگی سے فرار ہی نہیں،بلکہ خود ناشناسی بھی ہے اور فطرت کی عظیم نعمت کی ناقدری بھی۔اگر کسی سماج میں استعارے خلق نہیں ہورہے ہیں تواس کا مطلب اس کی حسیت کو گھن لگ چکا ہے۔اس کے داخلی ڈھانچے کو کسی فقیر کی بددعا یاکسی مہان رشی کی شراپ لگ گئی ہے،اور اس کا ہرفرد بیمار ہے۔عسکری صاحب نے کہا تھاکہ استعارے کی پیدائش کا عمل وہی ہے جو خواب کی پیدائش کا۔(29)خواب کے لیے نیند شرط نہیں،لیکن جس دنیا میں خواب سے زیادہ لوگوں کو نیند پیاری ہو،وہاں استعارے کے لیے یقیناً خطرے کی گھنٹی ہے۔انسان مشین بن جائے تو جیون نہیں جی سکتا۔جس طرح اونچی عمارتوں میں مٹی کے گھروں کی خوشبو نہیں مل سکتی،اسی طرح ’حقیقت‘کبھی خواب کا بدل نہیں بن سکتی۔توکیا ہمیں پھر جنگل کی طرف پلٹنا چاہیے؟آج نہ وہ قیس ہے، نہ وہ صحرا۔نہ وہ شیریں ہے ،نہ وہ فرہاد۔پھر بھی یہ دل پہاڑ کاٹ کر دودھ کی نہر نکالنا چاہتا ہے۔اگر یہ خواب ہے تو خواب ہی صحیح ۔مٹی کا بھید کسے معلوم:
اٹھو یہ منظرشب تاب دیکھنے کے لیے
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے
(عرفان صدیقی)

حواشی
(1)فیاض احمد وجیہہ،قیدیوں کے مزار پر(افسانہ)،مطبوعہ:جدیدادب،شمارہ:14(جنوری تا جون 2010)،جرمنی،مدیر:حیدرقریشی،ص:226
(2)انتظارحسین،بکرم،بیتال اور افسانہ،مشمولہ:علامتوں کازوال،1983،نئی دہلی:مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،ص:123
(3)وہاب اشرفی،قدیم مغربی تنقید،2010،دہلی:ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،ص:29
(4)ملک اشفاق،افلاطون:حیات،فلسفہ اور نظریات،2009،لاہور،پاکستان:بک ہوم،ص:100
(5)کلیم الدین احمد،قدیم مغربی تنقید،2004(دوسراایڈیشن)،لکھنؤ:اترپردیش اردو اکادمی،ص:14
(6)محمدحسن عسکری،مجموعہ محمد حسن عسکری،1994،لاہور،پاکستان:سنگ میل پبلی کیشنز،ص:980
(7)محمدہادی حسین،مغربی شعریات،1968،لاہور،پاکستان:مجلس ترقی ادب،ص:345
(8)Aristotle,On The Art Of Poetry,Translated by Ingram Bywater, 1959, London, Oxford University Press, PP:85-86
(9)خواجہ الطاف حسین حالی، مقدمہ شعرو شاعری، مرتبہ:وحید قریشی، 2002، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، ص:114
(10)S.T.Coleridge,Biographia Literaria,1973,Edited with his Aesthetical Essays by J.Shawcross, Volume:I, Chapter:xiii, Oxford University Press,P:202.
(11)خواجہ الطاف حسین حالی، مقدمہ شعرو شاعری، مرتبہ:وحید قریشی، 2002، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، ص:113
(12)ارسطو،شعریات،مترجم:شمس الرحمن فاروقی،1998(تیسرا اڈیشن)،نئی دہلی:قومی کونسل براے فروغ اردوزبان،ص:30
(13)Aristotle,On The Art Of Poetry,Translated by Ingram Bywater, 1959, London, Oxford University Press, PP:71-72
(14)ارسطو،شعریات،مترجم:شمس الرحمن فاروقی،1998(تیسرا اڈیشن)،نئی دہلی:قومی کونسل براے فروغ اردوزبان،ص:108
(15)Lee Spinks,Friedrich Nietzsche,2007,Noida,U.P.:Routledge,P:42
(16)Lee Spinks,Friedrich Nietzsche,2007,Noida,U.P.:Routledge,P:38
(17)شمس الدین فقیر،حدائق البلاغت،مترجم:امام بخش صہبائی،سال اشاعت:ندارد،لکھنؤ:منشی نول کشور،ص:41
(18)ڈاکٹر مجیب الرحمن،علم بیان وعلم عروض،1981(دوسرااڈیشن)،کلکتہ:عثمانیہ بک ڈپو،ص:45
(19)خواجہ الطاف حسین حالی، مقدمہ شعرو شاعری، مرتبہ:وحید قریشی، 2002، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس،ص:212
(20)شبلی نعمانی،شعرالعجم(جلد چہارم)،2007(طبع جدید)،اعظم گڑھ:دارالمصنفین،شبلی اکیڈمی،ص:38
(21)ایضاً،ص:39
(22)محمدحسن عسکری،مجموعہ محمد حسن عسکری،1994،لاہور،پاکستان:سنگ میل پبلی کیشنز،ص:196
(23)قاضی افضال حسین،تحریر اساس تنقید،2009،علی گڑھ:ایجوکیشنل بک ہاؤس،ص:4
(24)ن۔م۔راشد،کلیات راشد،2004،دہلی:کتابی دنیا،ص ص:450-452
(25)شمس الرحمن فاروقی،شعرشور انگیز،2006(تیسرااڈیشن)،نئی دہلی:قومی کونسل براے فروغ اردو زبان،ص:61
(26)ایضاً،ص:18
(27)ایضاً،ص ص:60-61
(28)محمدحسن عسکری،مجموعہ محمد حسن عسکری،1994،لاہور،پاکستان:سنگ میل پبلی کیشنز،ص:200
(29)ایضاً،ص:196

مضمون نگار:معید رشیدی

http://rekhta.org/ebook/taKHliiq_taKHiil_aur_isteaaraa_moiid_rashiidii

No comments:

Post a Comment