Thursday 24 October 2013

راگ رنگ کی ایک رات

دہلی میں یوں تو بے شمار موسیقار تھے مگر گانے والوں میں مظفر خاں، چاند خاں اور رمضان خاں۔ سارنگی نوازوں میں ممن خاں اور بندو خاں۔ ستار بجانے والوں میں برکت اللہ خاں۔ تال کے سازوں میں اللہ دیے خاں پکھاوجی اور نتھو خاں طبلہ نواز پورے ہندوستان میں منفرد سمجھے جاتے تھے۔ ان سب فنکاروں کا تعلق دیسی ریاستوں سے تھا، کیوں کہ دلّی کی بادشاہی ختم ہوجانے کے بعد فرنگیوں نے اہلِ ہنر کی قدر نہ کی۔ روزی کے مارے سارے فنکاروں کو ریاستوں ہی میں آسرا ملا۔ شاہی زمانے میں ان کی بڑی بڑی جاگیریں تھیں جو ۱۸۵۷ء کے ہنگامے میں تلپٹ ہوگئیں۔ یہ تو اب آخر میں فنکار ناقدری کی وجہ سے گرتے گرتے اتنے پست ہوگئے تھے کہ ان میں سے اکثر کو نان شبینہ بھی میسر نہ ہوتی تھی ورنہ محمد شاہ بادشاہ دہلی کے زمانے میں نعمت خاں (سدارنگ) کی یہ کیفیت تھی کہ وہ سوائے بادشاہ کے کسی اور کے ہاں گانے نہیں جاتا تھا۔ خود اس کے گھر میں روزانہ محفل ہوتی تھی بلکہ موسیقی کا دربار سجتا تھا۔ دربارِ اکبری کے رتن میاں تان سین نے تو وہ عروج پایا کہ ان کا نام ضرب المثل بن گیا۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفرؔ کے درباری گایک تان رس خاں کو گاؤں گراؤں انعام میں ملے ہوئے تھے۔ دلّی میں چتلی قبر سے آگے دائیں ہاتھ کو گلی تان رس خاں اب بھی موجود ہے جس میں تان رس خاں کی عظیم الشان حویلی آج بھی اپنی عظمتِ رفتہ پر کھڑی آنسو بہا رہی ہے۔
۱۹۴۷ء کے وسط میں جب چھرے گھونپے جارہے تھے اور شام کے چھ بجے سے صبح کے چھ بجے تک کرفیو لگ رہا تھا، دلّی کے دو چار منچلوں کو سوجھی کہ ایک ایسا جلسہ تان رس خاں کی حویلی میں ہوجائے جس میں تمام اہلِ کمال اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر شریک ہوں۔ دلّی کے ایک رئیس زادے تھے جنھوں نے اس فن میں اتنا درک حاصل کرلیا تھا کہ تمام کام کرنے والوں نے انھیں گنی مان لیا تھا۔ خوش اخلاق آدمی تھے اس لیے ان کی ڈیوڑھی گانے بجانے والوں کا مرکز بن گئی تھی۔ انھی کی کوششوں سے ان لوگوں کے اختلافات بہت کچھ دور ہوگئے تھے اور ان میں یکجہتی پیدا ہوگئی تھی۔ یا تو ایک کو ایک کھائے جارہا تھا یا یہ صورت ہوگئی کہ شیر بکری ایک گھاٹ پانی پینے لگے تھے۔ انھی رئیس زادے کی یہ تجویز تھی اور یہی صاحب سب کو نیوتا دیتے پھرے، اور ایک شام کو کوئی دو سو نامی گرامی گایک اور بجایک چھ بجے سے پہلے پہلے تان رس خاں کی حویلی میں جمع ہوگئے۔ صدر دالان میں دری چاندنی کا فرش لگا ہوا تھا۔ دو چار بڑے بوڑھے مہمانوں کی پذیرائی کرکے انھیں حسبِ مراتب بٹھاتے گئے، پس دالان اور پیش دالان دونوں بھر گئے۔ صحن میں دیگیں چڑھی ہوئی تھیں۔ پخت و پز کے نگراں استاد عمری رکاب دار تھے جو دور دور براتوں میں کھانا پکانے کے لیے بلائے جاتے تھے۔ یہ دلّی کے اسی علاقے کے رہنے والے تھے اس لیے انھوں نے اپنی خدمات مفت پیش کی تھیں۔ چھ بجے کے بعد نہ تو کوئی اندر آسکتا تھا اور نہ اندر سے باہر ہی کوئی جاسکتا تھا۔ لہٰذا دروازے بند کردیے گئے تھے۔ جلسہ شروع ہوا۔ پان سگریٹ، حقہ اور برف کے پانی سے تواضع ہوتی رہی۔ بھائی چارے کا وہ زور تھا کہ کوئی شخص دوسرے کو بھائی کا سابقہ یا لاحقہ لگائے بغیر مخاطب نہ کرتا تھا۔ اس جلسے کا تفصیلی بیان باعثِ طوالت ہوگا اس لیے اختصار کے ساتھ عرض کرتا ہوں:
کھانے سے پہلے سازوں کا پروگرام ہوا۔ ہونہار نوجوانوں نے اپنے اپنے گھروں کا باج طبلے پر سنایا۔ کسی نے قاعدہ کھولا۔ کسی نے ریلا پھینکا۔ کسی نے گت اور پرن سنائے۔ کسی نے پتلی اور چوپلی کا حساب پیش کیا۔ اس کے بعد طے ہوا کہ کھانے سے فارغ ہولیا جائے۔ دونوں دالانوں میں دسترخوان بچھ گئے، دہرا کھان چنا گیا۔ زردہ بریانی، قورمہ اور شیرمال۔ سب نے خوب سیر ہوکر کھایا۔
کھانے کے بعد آخر میں استادوں کی باری آئی۔ تبرّکاً انھوں نے بھی علم سینہ کا مظاہرہ کیا۔ محفل میں کوڑھ ایک بھی نہیں تھا اس لیے سب کو خوب خوب اور باموقع داد ملی۔
آخر میں استاد گامی خاں جوڑی لے کر بیٹھے۔ انھوں نے محسوس کرلیا کہ حاضرین تین گھنٹے تک طبلہ سنتے سنتے اکتا چکے ہیں۔ لہٰذا انھوں نے باج کے ساتھ اس کا بیان شروع کردیا۔ استاد گامی خاں کا رشتہ کئی پشت اوپر استاد مکھو خاں سے جاملتا تھا۔ یہ مکھو خاں وہ تھے جو خواجہ میردرد کی ماہانہ محفلوں میں پکھاوج اور طبلہ بجایا کرتے تھے۔ لال قلعے کے اکثر شہزادے ان کے شاگرد تھے۔ استاد گامی خاں نے دلّی کا خاص باج سنایا جسے ڈبیا کا باج کہتے ہیں۔ پورب اور اجراڑ کے باج سے اس کا فرق بتایا، پھر اپنے پرکھوں کی گتیں سنائیں۔ جب مکھوخاں کا طبلہ سنانے پر آئے تو ان سے منسوب ایک عجیب و غریب واقعہ بھی سنایا:
’’دادا مکھو شہزادوں کو تعلیم دینے لال قلعہ روزانہ بعد مغرب جایا کرتے تھے۔ ایک دن صاحب عالم کی ڈیوڑھی پر پہنچے تو دربان نے کہا، ’’استاد توقف فرمائیے۔ صاحب عالم اپنے اگن کی چہکار سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ میں اطلاع کیے دیتا ہوں‘‘۔ دادا جی مونڈھے پر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد طلبی ہوئی۔ صاحب عالم دالان میں فروکش تھے۔ دادا جی سات سلام کرتے آگے بڑھے، اگن کا پنجرا دالان کی بیچ کی محراب میں لٹکا ہوا تھا۔ نگاہ رو برو ہونے کی وجہ سے دادا جی نے دیکھا نہیں۔ آدمی تھے اونچے پورے قد کے۔ دالان میں جو داخل ہوئے تو شامتِ اعمال ان کا سر اگن کے پنجرے سے ٹکراگیا۔ لومیاں اگن نے بولنا بند کردیا۔ صاحب عالم کی تیوری پر بل پڑگئے۔ دادا جی کے ہوش اڑ گئے۔ ہاتھ جوڑکر بولے، ’’خطا معاف، خانہ زاد نے دیکھا نہیں‘‘۔ صاحب عالم نے برہمی سے کہا، ’’استاد تمھاری ٹکر سے جانور بھڑک کر خاموش ہوگیا۔ اب یہ نہیں بولے گا‘‘۔ دادا جی نے عرض کیا، ’’حضور کے اقبال سے بولے گا‘‘۔ مگر اگن نے چپ سادھ لی۔ صاحب عالم نے کہا، ’’استاد اگر اگن نہ بولا تو آج تمھاری خیر نہیں‘‘۔
دادا جی کے پیروں تلے کی زمین نکل گئی کہ خبر نہیں صاحب عالم ناراضگی میں کیا کر گزریں۔ ہوش و حواس قائم کرکے بولے، ’’حضور کے اقبال سے ضرور بولے گا‘‘۔ یہ کہہ کر سامنے سے طبلے کی جوڑی اٹھائی اور محراب میں پنجرے کے نیچے بیٹھ کر ایک گت بجانی شروع کی۔ اللہ کی شان، چند منٹ کے بعد اگن نے چہکنا شروع کردیا اور جوں جوں گت کی لے بڑھتی جاتی تھی اگن کی چہکار تیز ہوتی جاتی تھی۔ صاحب عالم کی باچھیں کھل گئیں اور بولے، ’’سبحان اللہ! استاد آج جیسا طبلہ ہم نے سنا، نہ کسی نے سنا اور نہ کوئی سنے گا‘‘۔ یہ کہہ کر آواز دی، ’’ارے کوئی ہے؟‘‘خدام دوڑ پڑے۔ فرمایا، ’’استاد کے ہاتھ کچل دو‘‘۔ حکم حاکم مرگ مفاجات۔ دادا جی کے ہاتھ کچل کر بھرتہ کردیے گئے۔
دادا جی قلعے سے افتاں و خیزاں اپنے گھر آئے۔ کس سے داد فریاد کرتے؟ زبردست مارے اور رونے نہ دے۔ اسی عالمِ بے چارگی میں ڈولی میں پڑکر اپنے پیر و مرشد داتا ملن شاہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انھوں نے کیفیت سنی اور حال دیکھا تو ان کی آنکھوں سے جلال ٹپکنے لگا۔ اسی حالتِ جذب میں دادا جی کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے اور بولے، ’’جا تو اچھا ہوجائے گا‘‘۔ ان کی دعا اور اللہ کے فضل سے دادا جی کے ہاتھ کچھ عرصہ میں بالکل ٹھیک ہوگئے‘‘۔
یہ واقعہ سنانے کے بعد استاد گامی خاں نے کہا، ’’میرے بزرگوں سے گت سینہ بہ سینہ مجھے پہنچی ہے۔ آج یہاں سبھی گنی موجود ہیں، وہ گت سناتا ہوں‘‘۔
یہ کہہ کر استاد نے گت شروع کی۔ پہلے آہستہ، پھر رفتہ رفتہ لے بڑھتی گئی اور سچ مچ یہ معلوم ہونے لگا جیسے چڑیاں چہچہارہی ہیں۔ سب نے کہا، ’’سبحان اللہ ماشاء اللہ! بے شک یہ وہی گت ہوسکتی ہے‘‘۔ رئیس زادہ نے کہا:
بے جان بولتا ہے مسیحا کے ہاتھ میں
طوالت کے خیال سے ا س جلسے کی تفصیل کو چھوڑتا ہوں۔ صرف ایک واقعہ ایسا اور ہے جس کا بیان خالی از دل چسپی نہ ہوگا۔
استاد بندو خاں سارنگی نواز بھی یکتائے روزگار تھے۔ انھوں نے اپنے لیے بانس کی ایک سارنگی بنائی تھی۔ یہ سارنگی جتنی چھوٹی تھی اتنی ہی اس کی آواز بڑی تھی۔ تار اور طربیں ملاکر استاد بولے، ’’آج میں بھی آپ حضرات کو ایک عجوبہ سناؤں گا‘‘۔ سب متوجہ ہوگئے، بولے، ’’آپ لوگوں نے دیپک راگ کا نام تو بہت سنا ہوگا۔ مگر کسی کو گاتے بجاتے نہیں سنا ہوگا۔ میں آپ کو آج دیپک راگ سناؤں گا‘‘۔ استاد چاند خاں (جو موسیقی کے عالم بھی ہیں اور استاد بندو خاں کے ماموں زاد بھائی اور خلیفہ بھی ہیں) تڑپ کر بول اٹھے، ’’نہیں بھائی صاحب دیپک نہ بجائیے۔ کچھ اور بجا لیجیے‘‘ بندو خاں نے مسکراکر کہا، ’’چاند خاں، ڈرو مت دیپک سے آگ نہیں لگے‘‘۔ چاند خاں صاحب نے کہا، ’’بھائی سنتے تو یہی چلے آئے ہیں کہ دیپک سے بجھے ہوئے چراغ جل اٹھتے ہیں اور آگ لگ جاتی ہے۔ آگ لگ جانا کوئی اچھی بات تھوڑی ہے۔ اس لیے یہ راگ متروک ہوچکا ہے۔ ہم اگر دیپک کی اس روایت کو نہ بھی مانیں تب بھی یہ تو مانتے ہیں کہ دیپک منحوس راگ ہے۔ اس کے گانے بجانے سے ضرور کوئی نقصان پہنچ جاتا ہے‘‘۔ بندو خاں صاحب نے کہا، ’’چاند خاں، تم تو پنڈت ہو۔ کتابیں پڑھ پڑھ کر عجیب عجیب باتیں سناتے ہو‘‘۔ دو بڑے استادوں میں اختلاف کو بڑھتے دیکھ کر رئیس زادے نے کہا، آپ دونوں حضرات صحیح فرما رہے ہیں۔ مگر ہمارے اعمال و افعال اس درجہ غلط ہوگئے ہیں کہ دعا میں بھی اثر نہیں رہا۔ دراصل دیپک شام کا ایک راگ ہے جو چراغ جلے گا یا بجایا جاتا ہے کہ اسی وجہ سے اس کا نام دیپک یا چراغ رکھا گیا۔ دیپک سے چراغ نہیں جلتے بلکہ چراغ جلتے ہیں تو دیپک گایا بجایا جاتا ہے۔ اب رہ گیا سعد و نحس کا معاملہ تو بعض وہمی باتیں بھی سچ ہوجایا کرتی ہیں‘‘۔
یہ بات سب کی سمجھ میں آگئی مگر چاند خاں صاحب دیپک کو منحوس ہی بتاتے رہے۔ بندو خاں صاحب نے کہا، ’’اچھا سن تو لو آئندہ نہیں بجائیں گے‘‘۔ یہ کہہ کر انھوں نے دیپک شروع کردیا۔ راگ میں کوئی غیرمعمولی بات نہ تھی، سیدھا سادا راگ تھا۔ خان صاحب نے خوب جی لگاکر بجایا مگر جب تک بجاتے رہے خواہ مخواہ طبیعت مکدر رہی۔ شاید وہم اپنا کام کرگیا۔ انھوں نے اپنی سارنگی رکھی ہی تھی کہ صبح کی اذانیں ہونے لگیں۔ دلوں کا تکدر دور ہوا۔
موذن مرحبا بر وقت بولا
تری آواز مکے اور مدینے
اذانیں ختم ہوئیں تو پھر سب ہنسنے بولنے لگے۔ چائے کا آخری دور چلا اور سب کی زبان پر یہی تھا کہ ایسا جلسہ دلّی میں کبھی بھی حاضرین کے ہوش میں نہیں ہوا۔ چھ بجے جب کرفیو ختم ہوا تو صحبتِ شب برخاست ہوئی اور سب اپنے اپنے گھروں کو سدھارے۔
دلّی میں فسادات بڑھتے ہی چلے گئے۔ ستمبر کے پہلے ہفتے میں دلّی میں آگ لگنی شروع ہوئی۔ مسلمان مارے جارہے تھے اور ان کے گھر لُٹ رہے تھے۔ قرول باغ ختم ہوا۔ سبزی منڈی ختم ہوئی۔ پہاڑ گنج ختم ہوا۔ آدھا شہر جل چکا تھا۔ شہر کے کئی لاکھ مسلمان پرانے قلعے اور ہمایوں کے مقبرے میں جاپڑے تھے۔ پرانی دلّی میں بھیروں ناچ رہا تھا۔ ہم سب بھی جان بچاکر کسی نہ کسی طرح پاکستان پہنچ گئے۔ بندو خاں صاحب بھی لاہور پہنچے اور ایک سال کے بعد کراچی آگئے۔ انھیں کوئی جگہ رہنے کی یہاں ڈھنگ کی نہیں ملی۔ ہارکر لالو کھیت کے ویرانے میں پڑ رہے۔ نہایت عسرت و تنگ دستی میں آخری عمر بسر کی۔ چاند خاں صاحب دلّی ہی میں رہ گئے۔ اب بھی وہیں ہیں۔ سالہا سال کے بعد ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے انھیں دلّی کا وہ آخری جلسہ یاد دلایا۔ خاں صاحب فقیر منش اور رقیق القلب آدمی ہیں، آبدیدہ ہوگئے۔ بولے، ’’بھائی صاحب آپ نے دیکھ لی دیپک کی نحوست! دلّی کو لوکا لگ گیا۔ وہ دلّی ہی میں ہیں مگر ہمارے دلوں میں فراق کی آگ لگی ہوئی ہے۔ یہ آگ آنسوؤں سے بھی نہیں بجھتی۔ ایک ایک کو آنکھیں ڈھونڈتی ہیں اور نظریں مایوس پلٹتی ہیں‘‘۔
اور میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا واقعی ۱۹۴۷ء میں جو دہلی بھسم ہوگئی تو بقول چاند خاں صاحب کے راگ کی آگ میں جلی تھی؟ یا یہ محض ایک سوئے اتفاق تھا، دلّی کی قسمت ہی میں یہ لکھا ہے کہ جلتی ملتی رہے۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
...............................................

مضمون نگار: شاہد احمد دہلوی


خواجہ محمد شفیع کی ایک مشہور کتاب 'دلی کا سنبھالا' ملاحظہ فرمائیے 

http://rekhta.org/ebook/dillii_kaa_sambhaalaa_KHvaajaa_mohammad_shafii

No comments:

Post a Comment