Monday 11 November 2013

علمی اور تخلیقی وقار کی ضرورت


میں نے اور معید رشیدی نے گزشتہ سال ایک رسالہ نکالنے کے بارے میں غور کیا تھا۔ ایک رسالہ جو نئے اور جدید ترین ادبی نقطہ نظر کا حمایتی اور ہمارے علمی و ادبی رویے کا عکاس جریدہ کہلا سکے-اس رسالے کے لیے ہم نے جتنی محنت کی، وہ آپ کو رسالہ پڑھ کر معلوم ہوجائے گی۔ مگر بہت کوشش کے باوجود میں اپنے بعض پریشان کن حالات کے سبب یہ پرچہ شائع نہ کرسکا-ابھی کچھ دنوں پہلے مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ اس محنت کو آن لائن کردیا جائے اور سیاق کے  آن لائن ہی پبلش کرنے کا ایک سلسلہ شروع کیا جائے۔ چنانچہ میں اس پہلے شمارے کو آپ لوگوں کے سامنے پیش کررہا ہوں۔ سیاق کے بارے میں شاید یہ بات لوگ نہیں جانتے ہیں کہ اس کو جاری کرنے سے ہمیں اردو کے ایک اہم مدیر زبیر صاحب نے باز رکھنے کی کوشش کی تھی، اور جب انہیں معلوم ہوا کہ ہم رسالہ نہیں نکال رہے تو انہوں نے ذہن جدید کے ایک شمارے میں اس کا ذکر کیا اور اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ ذہن جدید کے ہوتے ہوئے نئی نسل کو کوئی پرچہ نکالنے کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی اس لیے نئی نسل نے اپنا پرچہ شائع کرنے سے خود کو روک لیا ہے۔ جبکہ یہ حقیقت نہیں ہے، سیاق میری کچھ مجبوریوں کی وجہ سے شائع نہیں ہوسکا اور اب میں کوشش کروں گا کہ یہ کتابی سلسلہ آگے بھی محض آن لائن جاری رکھنے کی کوشش کرسکوں۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔اس پرچے کے لیے معید رشیدی نے ایک زبردست اداریہ لکھا تھا جس میں نئی نسل کی ذہنی اپج کے اسباب اور آرٹ اور ادب کے حوالے سے موجود گتھیاں سلجھانے کی کوششیں کی گئی ہیں۔اس سے زیادہ میں اور کیا کہہ سکتا ہوں۔
تصنیف حیدر


لیوتار کے مطابق مہابیانیہ کا خاتمہ ہوچکا ہے اور یہ چھوٹے چھوٹے بیانیوں کا عہد ہے ۔اس نے عالمی فکری روایتوں کو مہابیانیہ کہا۔علم کی دوقسمیں بیان کیں ۔سائنس اور بیانیہ ۔بیانیہ ثقافتی روایتوں کا تسلسل ہے ۔اساطیری حکائی روایتیں بیانیہ کو استحکام عطا کرتی ہیں ۔بیانیہ سائنس نہیں ۔ اس لیے سائنسی اصولوں پر اس کا مطالعہ نہیں کیا جا سکتا ۔بیانیہ اپنی فلسفیانہ اساس پر قائم ہے ۔اس لیے اس کی لاتشکیل بھی ممکن ہے ۔تفکری جدلیات بڑے بیانیے کو رد نہیں کرتی ، بلکہ عالمی فکری روایتوں کے سوچ سفر کو تسلسل عطا کرتی ہے ۔اب اگر یہ کہا جائے کہ مہابیانیہ ختم نہیں ہوا ، بلکہ کھو گیا ہے ۔ اس کی دریافت کی جائے تو معاملہ یہی ہے کہ کچھ بھی ہو ،اصل شے ان بڑی فکری روایتوں کو تسلسل میں رکھ کر ان کے مباحث کو آگے بڑھانا ہے ، تاکہ فکری دھاروں پر قدغن نہ لگنے پائے ۔یہ سچ ہے کہ بہت تیزی سے دنیا بدل رہی ہے ۔ آج ہم اکیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں۔ یہ عہدشکست و ریخت کا المیہ ہے۔ معاشرتی تخریب کاری ذہنوں میں ہیجان پیدا کر رہی ہے۔ انسانیت سوز گھناؤنی حرکتیں تشدد کو راہ دے رہی ہیں۔ عسکریت، سازشی جارحیت اور بے پناہ علمی صلاحیتیں انسانیت کی بیخ کنی کے لیے تیار ہیں۔ بے حسی نے درد مندی کے جذبات کو مغلوب کر لیا ہے۔ سماج دشمن عناصر اور جنگی جنونیوں کے یہاں انصاف کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ نت نئے جوہری تجربات کے بھیانک ، مکروہ اور بعید از قیاس انجام کی فکر کس کوہے؟مختلف ممالک کی خانہ جنگیاں تہذیبوں کو غارت کر رہی ہیں۔ نام نہاد روشن خیالی کتنی کھوکھلی ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ آج بھی ایک بڑا طبقہ دانے دانے کا محتاج ہے۔ علم کی روشنی سے محروم ہے۔ طبی سہولتوں کی عدمِ دستیابی کے سبب گھٹ گھٹ کر مرنے پر مجبور ہے، اور حکمراں طبقہ بنیادی مسائل سے نظریں چرارہا ہے۔ مذہب کی آڑ میں نفرت ، تنگ دلی، بغض و عناد، تعصب، رجعت پسندی اور رسمیات کا سہارا لے کر صالح اور مثبت سماجی کردار کو مجروح کیا جا رہا ہے۔ ترقی پسندی اور روشن خیالی کے باوجود پوری دنیامیں ذات پات، رنگ، نسل، زبان او ر قومیت کی تفریق بے ایمانیوں ، ناانصافیوں اور تشدد کو فروغ دے رہی ہے، جس کے باعث احساسِ کم تری اوراحساسِ بر تری دونوں کو استحکام حاصل ہوا ہے۔ یہاں تشدد جنم لیتا ہے۔ آج ہر طرف خوف کا ماحول ہے۔ مسیحائی اپنا مفہوم کھوچکی ہے۔ تنہائی انسان کا ذہنی مقدر ہے۔ رالف ہار پر نے کہا تھاکہ تنہائی اور اس کے دردو کرب کے دو اسباب ہیں۔آج کا آدمی ایک طرف تو باہر سے ٹوٹا ہوا ہے اور دوسری طرف اپنی خودی یا خدا سے ٹوٹا ہواہے۔
آج انسانیت انتشار اوربحران کی شکار ہے۔ یہ انتشار خارج میں بھی ہے اور باطن میں بھی ، بلکہ یہی عالم گیر مظہر ہے کہ آج کا فرد نوع بہ نوع ذہنی، جذباتی اور نفسیاتی پیچید گیوں میں گھرا ہوا ہے، اور مہذب دنیا سیاسی، سماجی، تہذیبی، اخلاقی اور ذاتی قدروں کا نیا نظام مرتب کر رہی ہے۔ ہر تجربہ گو نا گوں استفسارات کا اسیر ہے۔ مشینوں کی بے درد حکومت احساسِ مروّت کو تار تار کر رہی ہے۔ رفتہ رفتہ دنیا’ عالمی گاؤں‘ میں تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ آگے بڑھنے کی تمام تر للک، نئے جہانوں کی دریافت کے مسائل اور نت نئے تجربات کے ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا تجربات کے بازار میں روایات کا سکّہ کھوٹا ہو چکا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو ماضی کی نفی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اکیسویں صدی کا معاشرہ اس قدر پیچیدہ اور مسائل سے پر ہے کہ اس کا بیان ممکن نہیں۔ یہ کس طرف جائے گا، کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ اس لیے کہ انتشار کی کوئی سمت نہیں ہوتی۔ اس ہمہ گیر بحران سے تنگ آکر فن کار اپنے داخل میں پناہ لینے پر مجبور ہے۔ یہیں خارجی و داخلی تناقض کا مألہ سرا ٹھا تا ہے، اور یہ کشاکش داخلی ردِ عمل کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ تخلیق کا رخود اپنی ذات سے جنگ کرتاہے ،جس کاردعمل اسے مزید حساس بناتاہے۔ مادّی آسائشوں کے لیے فرد بھیڑ میں پناہ لینے اور لامعلوم اکائی کی طرح ، جس کی ازدہا م میں کوئی انفرادی شناخت نہیں، زندہ رہنے پر آمادہ ہے۔ سچا تخلیق کار تکلفات اور مادّی حقائق کے سایے میں گھٹن محسوس کرتا ہے۔ وہ سماج سے فرار حاصل نہیں کرتا، بلکہ معاشرے کی ایک اکائی کی صورت ہی میں تلاشِ ذات میں محو رہتا ہے۔ وہ روحانیت اور عرفانِ ذات کا جویاہے۔ اسی لیے اسے داخلی تنہائی، آزاد خیالی اور وسیع ا لمشربی راس آتی ہے۔ آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے ۔ا س کے بغیر بڑا ادب تخلیق نہیں کیا جا سکتا۔ مخصوص نظریات کی پابندی تخلیقی عمل میں مخل ہوتی ہے۔ ہنری جیمس کہتا ہے:
’’مجھے تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی فن کار بھی سنجید گی سے فنی عمل نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ حد سے زیادہ آزادی محسوس نہ کرے۔ یہی احساس ایک قسم کا الہام ہے۔‘‘
سارتر کہتا ہے کہ آزادی آدمی کی مجبوری ہے۔آزادی اس کا فطری تقاضا ہے۔ اسی لیے تخلیق کار کو جرأت آزما ہونا پڑتا ہے۔ وہ اَن دیکھی دنیا ؤں کی سیر کرنا چاہتا ہے۔ اس میں بے لوث جمالیاتی محویت ہوتی ہے۔ اس کی ذات میں تمام وجودی ابعاداور نیرنگیاں موجود ہوتی ہیں۔ اس کی آگہی شعور کے مختلف مدارج سے مربوط ہوتی ہے۔ اس کا داخلی و جود شدتِ جذبات سے مملو ہے۔ اس کا تجربہ محسوساتی، رومانی اور جذباتی ہوتا ہے۔ معروضی رویے کی رسائی خارجی پہلوؤں تک ہی ہوتی ہے۔ اس لیے یہ تجربہ سطحی اور خارجی ہوتا ہے، جبکہ شاعری بقول، شبلیؔ ذوقی اور وجدانی شے ہے۔ شعر نشاطیہ بھی ہو سکتا ہے اور المیہ بھی۔ جدید شعری جمالیات نشاط انگیزی ہی سے عبارت نہیں ،بلکہ اس کے دائرے میں حرماں نصیبی، تلخی،مایوسی اور رنجیدگی بھی شامل ہے۔معاصر شعریات عصر یت کی منکر نہیں، بلکہ یہ عہد حاضر کے خلفشار سے متاثرہے، لیکن اخلاقی، سیاسی اور سماجی حوالوں سے پہلے ادب کی ادبیت پر اصرار کرتی ہے۔ یہ کلیت پسندی کے خلاف ہے، کیوں کہ تازہ کاری کا جدلیاتی عمل ہی اسے نت نئی سمت ورفتار عطا کرتا ہے۔ یہ ماضی وحال کی روایتوں سے خود انضباطی اور ہم آہنگی کا نا م ہے۔ یہی نظم و ضبط اور ہم آہنگی اسے توانائی بخشتی ہے۔ یہ معلومات کے بجائے بصیرت پر زور دیتی ہے۔ جمالیاتی تفاعل میں تنوع کا احساس دلاتی ہے۔زمینی وابستگی کی طرف راغب کرتی ہے ۔ یہ کہنا کسی طرح صحیح نہیں کہ معاصر شعریات داخلیت ، تنہائی اور شکستِ ذات سے اوب چکی ہے، اس لیے کہ یہ زندگی کے نئے مسائل سے رشتہ قائم کرنا چاہتی ہے۔ مسائل جتنے بڑھیں گے، اس کی بوقلمونی میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ ساتھ ہی داخلیت، احساسِ تنہائی اورشکستِ ذات میں بھی تہہ داری آئے گی، لیکن زندگی محض درد و غم کا نام نہیں۔ اس کا ایک نشاطیہ پہلو بھی ہے، جس سے انکار ممکن نہیں۔ اسی لیے معاصر شعریات پر قنوطیت کی چھاپ نہیں لگائی جا سکتی ۔ معاصر شعریات بے یقینی اور یقین ، دربدری/ بے جڑی اور زمینی وابستگی، لا حاصلی اور امید، جیسے پہلوؤں کی ثنویت (Dualism)پر ایمان رکھتی ہے۔ اس لیے کہ یہ ثنویت حیاتِ انسانی کی جبلّت میں ہے۔ 
شمس الرحمن فارقی کا یہ کہنا درست ہے کہ طرزِ ادا اور طرزِ فکر میں آج کے شاعر جدیدیوں سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں، لیکن تجربہ پسندی کے بجائے متوازن طرز فکر کو اہمیت دیتے ہیں۔ یہی متوازن طرزِ فکرمعاصر شعریات کی بنیاد اور جواز ہے کہ صورتِ حال میں تبدیلی آئی ہے۔یہ تبدیلی فقط شاعری تک محصور نہیں،بلکہ دیگر اصنافِ ادب(خواہ نظم ہو یا نثر)پر بھی اس کے آثار محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ زمانے کے ساتھ مزاجِ شعریات میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ بقول دیوندراسّر’’ادب کا کوئی بلا شرکت غیرے واحد شاستر یا اس کی کوئی آفاقی شعریات نہیں۔ادب تفرقات اور اختلافات پر ہی مبنی ہے۔‘‘ تخلیق فطری عمل ہے اور خود اپنا راستہ طے کرتی ہے اور بقول ٹی۔ایس۔ الیٹ وہ’کُل‘ کے تنوع کی تخلیق کا نام ہے۔ اس کا سفر لا متنا ہی ابعاد میں ہے۔ یہ حسّی تجسیم کی تخلیق ہے۔ احساس کی پیچیدگی کی نوعیتیں نامیاتی ہیں۔ عہد حاضر کے مسائل بھی تہہ در تہہ پیچیدگیوں سے مرکب ہیں۔ آج کا انسان کچھ بکھرا بکھراسا نظر آتاہے۔ ایک فریب جس میں مسلسل انسان مبتلا ہے، اپنے لیے حرارتِ جاں سمجھتا ہے۔ جہاں انتشار کی یہ سطح ہو ، وہاں چھوٹے چھوٹے بیانیوں پر نظر تو ٹکے گی ہی ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ چھوٹے بیانیے اپنا آزادانہ وجود رکھتے ہیں ۔ان کے بطن میں ثقافتی سلسلوں کا کوئی عنصر نہیں ۔مہابیانیہ کی موت کا اعلان اب پرانی بات ہوچکا ہے ۔عمران شاہد بھنڈر معاصر تنقیدی فلسفیانہ مباحث کا شناسا نام ہے ۔انھوں نے لیوتار کے مہابیانیہ ، ہیگلیائی تصورات ، تفکری جدلیات ،تصور امتزاج اور وحدت کے ضمن میں وزیرآغا کے خیالات کا تنقیدی جائزہ لیا ہے ۔وزیر آغا اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ انھیں بھلادیاجائے ۔ان کی فکر اور ان کی تحریروں کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو ہونی چاہیے ۔اردو میں مابعد جدیدیت کے مباحث کو سمجھنے سمجھانے میں دیگر ناقدین کے ساتھ ان کا بھی کردار، رہا ہے ۔ہم نے مابعدجدیدیت اور تصور امتزاج پر عمران شاہد بھنڈر کا مضمون شامل کیا ہے جو آغا جی کے تصورات کی رد میں ہے ۔بعض حضرات یہ کہیں گے کہ اب جب کہ ان کی موت ہوچکی ہے ،ان پر یہ مضمون نہیں چھپنا چاہیے ، لیکن ان حضرات کی خدمت عالیہ میں عرض ہے کہ وہ اس نوع کی گفتگو نہ کرکے علمی افہام و تفہیم کو آگے بڑھائیں اور دلائل کے ذریعے اپنی بات تحریری صورت میں پیش کریں ۔ہم ان کا استقبال کریں گے ۔ہمارا مقصد کسی پر کیچڑ اچھالنا نہیں ، بلکہ سنجیدہ مباحث اور ان کے افہام و تفہیم کی کوششوں کو بااثر بنانا ہے ۔اختلاف کرنے سے احترام کا دروازہ بند نہیں ہوتا۔
شاعری ہو کہ فکشن ، ہماری کوشش ہوگی کہ کسی بھی تخلیق کا رکی اتنی چیزیں مطالعے میں لائی جائیں جن سے قارئین کو رائے قائم کرنے میں مدد ملے ۔تحقیق و تنقید کے نظری اور عملی مباحث کے لیے ہم ہمہ وقت تیار ہیں ۔نظریے کی فلسفیانہ توضیح ہو یا ان کا متن میں اطلاقی مطالعہ ، ہر طرح کی فکر ی و سنجیدہ کوشش میں آپ ہمیں اپنے ساتھ پائیں گے ۔ عالمی اور علاقائی ادب پر ہماری خصوصی توجہ ہے ۔ اس لیے کہ فن کے ابعاد اپنی نیرنگیوں میں شمار کی حد سے نکل جاتے ہیں۔ شاعری ہو کہ فکشن،باطن میں چھپی آگ کی کریدہے۔ اس آگ میں تپ کرکندن ہوجانے والالفظ کبھی بانجھ نہیں ہوسکتا۔ کہانی لفظوں سے بنتی ہے۔ تنہا لفظ کہانی خلق نہیں کرسکتا۔ لفظوں کا اجتماع تجربے کااجتماع ہے۔ کوئی تجربہ واردات بن کرجب تک روح کی گہرائی میں اتر نہیں جاتا،واقعہ توبن سکتا ہے، کہانی ہرگزنہیں۔ کہانی انسان کا سایہ ہے کہ وہ ساتھ تو چلتا ہے،مگراس کے قدم نہیں رکتے،اور ایسا بھی ہوتاہے کہ وہ کسی غارمیں جاکرچھپ جاتا ہے۔ یعنی کہانی رات کابدن ہے۔ باذوق قاری اس بدن میں گم ہوجاتاہے۔ مکروہ سیاست دان اس بدن کو نوچ کھاتے ہیں۔ کہانی حواکی بیٹی ہے کہ آج تک لٹ رہی ہے۔ افلاس،بھوک اور بیماری سیاسی نعروں سے نہیں مٹتی۔ کہانی کاراس دکھ کوسمجھتاہی نہیں؛اس میں جیتابھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے لفظ رقص نہیں کرتے،جل کربھسم نہیں ہوتے،بلکہ سلگتے رہتے ہیں۔ اس جلن کا اس وقت تک کوئی مرہم نہیں،جب تک خون کی سیاہی دھل نہیں جاتی۔ روسونے کہاتھاکہ انسان آزادپیداہواہے،لیکن ہرقدم پر پابہ زنجیرہے۔ کہانی اس زنجیرسے آزاد ہوناچاہتی ہے۔ غلامی انسان کا مقدرنہیں؛سیاست کا طوق ہے۔ اس سے رہائی کی جنگ میں نہ جانے کتنے تجربے شکست سے دوچارہوتے ہیں۔ یہ شکستگی فن کا مظہر ہے۔ عالمی ادب کے باب میں سب سے پہلے ہم نے افریقی کہانی کو منتخب کیا ہے اور اس کے تجزیاتی مطالعے کے لیے خورشید اقبال کا مضمون شامل کیا ہے ۔کہانی کے مترجم بھی وہی ہیں ۔
ہمیں پڑھایاگیاتھا کہ افریقہ تاریک براعظم ہے۔ بچپن کی ننھی سمجھ نے یہی جانا کہ وہاں سورج ہی نہیں نکلتا،مگرمعاملہ کچھ اورتھا،جسے اس شعر نے آسان کردیا:
ہاں یہ سورج حیات بخش سہی
دھوپ کھاکرگزرنہیں ہوتا
زندگی توکسی نہ کسی طورگزرہی جاتی ہے،لیکن آگہی کے عذاب نے کب کسی کو بخشا ہے۔ انسان اور جانور میں کچھ توفرق ہے۔ مساوات کانعرہ بلندکرنے والی کھوکھلی جمہوریت محض تماشائی ہے۔ انسان تماشا نہیں، دردِ دل کا شناساہے۔ تماشائی اگراس شناسائی پرایمان لے آئیں تودنیاکانقشہ کچھ اورہوگا۔ لفظ،کالایاگورانہیں ہوتا۔ جذبۂ اسفل اسے سیاہ کر دیتا ہے۔ اصل شے بدن کی رنگت نہیں، جذبے اورروح کاتقدس ہے۔ افریقی کہانیوں میں یہ تقدس، آنسوؤں کے جلنے کے ساتھ پیداہواہے۔ افریقہ کی تاریکی کہانی کاپیرہن ہوگئی ہے۔ ظاہر میں یہ پیرہن جتناچاک ہے،باطن میں اس کی گرفت اتنی ہی مضبوط ہے۔ افریقی ادیبوں کے موضوعات میں داستان،اساطیر،غریبی،فاقہ کشی،نسلی منافرت، تعصب، بے روزگاری اوراستحصال باربارآتاہے۔ غلامی اورنوآبادیاتی جبرکے کرب کا اثرآج بھی مضبوط ہے۔ افریقی کہانیاں حالات کا نوحہ نہیں؛احتجاج کی علامت ہیں۔ افریقہ شروع ہی سے استعمال ہوتارہاہے۔ وہاں کے لوگ غلام کی حیثیت سے بیچے اور خریدے جاتے رہے ہیں۔ آج بھی صورتِ حال کچھ زیادہ بہترنہیں۔ روٹی،کپڑا،اورمکان کے مسائل میں غذائی اجناس کی عدمِ سہولت،تعلیم اورصحت جیسی بنیادی ضرورتیںآج بھی زندگی کوتاریکی میں گھسیٹ رہی ہیں۔ 
افریقہ جیسے براعظم کی تاریکی شاید وہ دیومالائی ابہام ہے، جس کی گتھیاں آج بھی نہایت پیچیدہ ہیں۔ آج بھی وہاں کے عوام دیومالا میں جیتے ہیں۔ تاریک براعظم میں تخلیق پانے والی کہانیوں کے تجربے سے گزرکران میں اترنااورخود کوان مراحل میں شریک کرنا،اس چمک سے عبارت ہے،جہاں سے روشنی کا سرچشمہ پھوٹتاہے:
ابتدائے آفرینش میں 
دودھ کا ایک بہت بڑا قطرہ تھا
ڈونڈاری آیا اور اس نے اس سے پتھر کو پیدا کیا
پھر پتھر نے لوہے کو پیدا کیا
پھر لوہے نے آگ پیدا کی
پھر آگ نے پانی پیدا کیا
پھر پانی نے ہوا پیدا کی
تب ڈونڈاری دوسری بار آیا اور اس نے پانچوں عناصر سے انسان کو پیدا کیا
لیکن انسان مغرور ہو گیا
تب ڈونڈاری نے بے بصری پیدا کی
لیکن جب بے بصری مغرور ہوگئی
تب ڈونڈاری نے نیند پیدا کی
لیکن جب نیند مغرور ہو گئی
تب ڈونڈاری نے پریشانی پیدا کی
لیکن جب پریشانی مغرور ہو گئی
تب ڈونڈاری نے موت کوپیدا کیا
لیکن جب موت بھی مغرور ہوگئی 
تب ڈونڈاری تیسری بار دنیا میں آیا
اس بار وہ گوینو کے اوتار میں آیا، جو لافانی تھا
اور گوینو نے موت کو شکست دی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ن۔م۔راشد نے تجربے کو روایت کی صورت دی ۔ معنی خیزی کے اعتبار سے ان کی شاعری کا مطالعہ اہمیت کا حامل ہے ۔ایک گوشہ ان کے لیے بھی ہم نے مختص کیا ہے جس میں کچھ نئی چیزیں شامل ہیں ۔فیس بک پر ہوا راشد کی شاعری پر مذاکرہ نئی چیز ہے۔ ۲۰۱۰کون ۔م۔راشد کے ساتھ ساتھ محمد حسین آزاد سے بھی منسوب کیاگیا۔۲۰۱۱ فیض سے مخصوص ہوا اور ۲۰۱۲میراجی کا سال ہے ۔ آئندہ شمارے میں میراجی خصوصی طور پر گفتگو کا موضوع ہوں گے ۔ 
اس وقت نئی نسل کو قبول کرنا سب سے مشکل کام ہے ۔اردو معاشرے میں اکثریت ان حضرات کی ہے جو نہ خود کچھ کرتے ہیں ، اور نہ دوسروں کو کچھ کرنے کا موقع دیتے ہیں ۔بزرگوں کو مسند صدارت کی فکر ۔نوجوانوں کی طرف کون دیکھے ؟ان کی تحریریں کون پڑھے ؟ان کے سر پر ہاتھ کون رکھے ؟جب حوصلہ افزائی ہی نہیں تو اصلاح تو دور کی کوڑی ہے ۔ہاں ، نئی نسل پر ماتم کرنا آسان ہے !۔
آج رسالوں کی زیادتی اور اچھے لکھنے والوں کی کمی ہے ۔رسالوں کی اس بھیڑ میں کوئی نیا رسالہ جاری کرنا، خطرے سے خالی نہیں ۔یہ سچ ہے کہ آج چھپنے کے وسائل بڑھ گئے ہیں لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے کہ ہندوستان میں ایسے کتنے ادبی رسائل ہیں جو سنجیدہ اور نہایت معیاری ادبی تخلیقات سے روشناس کراتے ہیں ۔ایسے کتنے رسالے ہیں جو معاصر ادب کی تفہیم و تعیین میں منہمک ہیں ۔ایسے کتنے رسائل ہیں جن کے منشور میں ادبی خلوص ہے ۔ہمیں انبار کی نہیں ،معیار کی جستجو ہے ۔ہمیں کوئی دعویٰ نہیں ۔ہم اپنے عصر اور اس کی بنیادوں پر غور کرنا چاہتے ہیں ۔نئے چہروں کو سامنے لانا چاہتے ہیں ۔سوچ سفر کو سلسلہ عطا کرنا چاہتے ہیں ۔ہماری ترجیحات لفظ و معنی کے رشتوں کے پرمغز حوالہ جات ہیں ۔ہم سیاست اور پروپگینڈے پر یقین نہیں رکھتے ۔ جو لوگ سنسنی پھیلاکر رسالہ بیچ رہے ہیں،ان کا مقصد تجارت ہے ۔جو لوگ شخصی حوالوں پر کیچڑ اچھال کر رسالہ نکال رہے ہیں ، ان کا منشا سیاست ہے ۔ جغرافیائی لکیریں زمینیں تقسیم کرسکتی ہیں ، محسوسات نہیں ۔انسانی جذبے کی بے کرانی سرحدوں کے قیود کو تسلیم نہیں کرتی ۔ ہمیں اچھے ادب کی تلاش ہے ۔نئے لہجوں اور فکر کے نئے منطقوں کی جستجو ہے ۔
پچھلے دنوں چار اہم ادبی شخصیات ہم سے رخصت ہوگئیں ۔۱۵ اکتوبر کی شام ہم تو نکلے تھے جے پور پنک سٹی پریس کلب کی ایک ادبی تقریب میں شرکت کے لیے کہ فون کی گھنٹی بجی ۔اسلام آباد سے علی اکبر ناطق لائن پر تھے ۔کہنے لگے کہ آج منشا یاد کا انتقال ہوگیا۔میں افسردہ توبہت ہوا لیکن مجھے منشاے مصنف کا مفہوم سمجھ میں آگیا۔عجیب و غریب سیمابی شخصیت صلاح الدین پرویز کی بھی تھی ۔حیات میں ان کے آگے پیچھے رہنے والے تو بہت تھے لیکن جیسے اب تو یہ رسم ہی اٹھ چکی کہ جانے والے کو یاد کرلیا جائے ۔واقعہ یہ ہے کہ منشا کچھ بھی ہو، اب تو فقط ان کی یادیں ہی باقی ہیں ۔ان کی ہر سانس ان کے ہر حرف میں زندہ ہے ۔جاوید انور کا تعلق پاکستان سے ہے ، لیکن وہ آسٹریا میں مقیم تھے ۔نظم کے اچھے شاعروں میں ان کا شمار ہوتا ہے ۔گزشتہ دنوں وہ لاہور اپنے عزیز و اقارب اور احباب سے ملنے آئے تھے ۔ان کی مٹی انھیں کھینچ لائی ، لیکن اس بار اس نے ہجر گوارا نہ کیا ۔اپنی آغوش میں لے لیا ۔جاوید انور سیاق سے جڑنا چاہتے تھے ۔ہم نے ان کے تراجم چھاپنے کا ارادہ کیا تھا لیکن سارے ارادے خاک میں مل گئے ۔ان کی شرافت ، صاف گوئی ، ادب نوازی اور زندہ دلی کو سلام !شجاع خاور کے ساتھ غزل کا ایک تیور بھی رخصت ہوگیا۔۔۔۔
خالق سیاق خلق کرتا ہے ۔متن کی تفہیم کے مختلف زاویے ہوسکتے ہیں ۔ہر نظریے کے اپنے تعصبات اور تحفظات ہیں ۔کسی ایک دائرے میں مقید ہوکر متن کو معنی عطا کرنا ،متن کے ساتھ زیادتی ہے ۔ مطالع�ۂ متن اس آزادی کا طالب ہے جوتنقید کو بین العلومی بناتی ہے ۔ہر عہد میں متن کی بنیادی اہمیت رہی ہے ۔تعبیریں تو بدلتی رہتی ہیں ۔ہمیں آزادی ہے کہ متن کو جس تناظر میں چاہیں سمجھیں ،لیکن سیاق کے بنیادی ثقافتی معنیاتی عمل کو غیر اہم نہ سمجھا جائے ۔متن سے معنی کشید کرنا بذاتِ خود جمالیاتی فعل ہے ۔اس لیے ’سیاق‘ کے دروازے صحیح تناظر میں متن کے افہام وتفہیم کے لیے ہمیشہ کھلے رہیں گے ۔ادب اختلاف سے آگے بڑھتا ہے ۔جائزعلمی اختلافات کا استقبال کیا جائے گا۔ادب کو سیاست کی نہیں ، علمی اور تخلیقی وقار کی ضرورت ہے ۔

معیدرشیدی

سیاق کو پڑھنے کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کریں۔ شکریہ
http://rekhta.org/ebook/Siyaq_

No comments:

Post a Comment