Tuesday 22 July 2014

اب کے ہم خواب بھی نہ دیکھیں کیا؟

 
اور پھر وہی ہوا جس کا ہمیں ڈر تھا
یعنی ہم نے پھر ایک خواب دیکھا اور وہ سچ ثابت ہوا۔گو کہ خواب دیکھنے کی ہمیں قبلہ پیر و مُرشد کی جانب سے سخت ممانعت تھی لیکن حیف کہ ہم باوجود کوشش اسے، خواب کو، آنے سے نہیں روک پائے۔ہمارے پیر و مُرشد حضرت علامہ بالشرارت متقی کراماتی مضافاتی اور اشرف المخلوقاتی نے ہمارا ہاتھ،داہنا،دیکھ کر فرما دیا تھا کہ تم خواب مت دیکھنا،کہ اس سے نتائجِ بد کا اندیشہ ہے۔ ہم ذرا پریشان ہوئے کہ بقول مرزا نوشہ اب ہم خواب میں بھی بوسہ لینے سے رہے، اور عرض کیا کہ اے حضرت! اس میں، خواب نہ دیکھنے میں، کیا مصلحت ہے، بارے تفصیلی بیان ہو جاوے۔اس پہ قبلہ پیرو مُرشد کامل وعاقل و بالغ نے پہلے تو اس گستاخانہ رویے پر سرزنش کی اور بعدازسرزنش فرمایا کہ دیکھو تمہارا مشتری کا ستارہ زہرہ کے زیر اثر ہے، اور وہ مریخ کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا ہے، مریخ کا سایہ میونسپلٹی کے زیر قبضہ ہے، دریں اثناء عطارد ان سب پر نظریں گاڑے بیٹھا ہے، جب تک یہ اسے ٹکٹی باندھے دیکھتا رہے گا اس کا اثر تمہارے روزہ مرہ پر رہے گا۔بطور خاص تمہاری’ خوابی دُنیا ‘ متزلزل رہے گی۔لہذا تمہارے لئے مشورہ بلکہ حکمِ مُرشدِ مرادات یہ ہے کہ تم تا حکمِ ثانی خوابوں سے بچے رہو، یعنی انہیں، خوابوں کو، دیکھنے سے گریز کرو۔بصورتِ دیگر تمہیں سب خواب بلیک اینڈ وائٹ نظر آئیں گے اور تاثیر و تعبیر دونوں میں بد ہوں گے۔یہ کہہ کہ ہمارے قبلہ پیرو مرشد نے اس زور سے ہمارا ہاتھ جھٹکا کہ ہمیں اپنے کاندھے کی ہڈی کھسکنے کی آواز صاف سنائی دی۔ہمارے منہ سے بیساختہ آہ نکلی لیکن مرشدِ کامل کے کان پر جوں تک نہ رینگی(جوں کا نہ رینگنا بھی ایک کرامت شمار کی جائے ورنہ ہم جانتے ہیں کہ موصوف کو پانی سے کس قدر پرہیز ہے)۔پیر ومرشد بدستور چلم کے کش لگاتے رہے۔ایک خادم جو اس دوران چلم میں جانے کیا ڈالے جارہا تھا جس کے زیرِ اثر ان کا جلال دیدنی تھا۔ہمارا خیال ہے کہ ممکنہ طور پر یہ کوئی ایسا لوبان ہے جس سے قوم و ملت کا غم جاتا رہے، واللہ اعلم بالصواب۔ہم نے ہڈی کھسکنے کی آواز کو اپنے مرشدِ کامل وعاقل و بالغ کی کرامت سمجھا اور ایسا کوئی خیالِ بد اپنے دل میں نہ آنے دیا کہ یہ موصوف کی جسمانی طاقت کا کمال ہے کہ جو پچہتر کے پیٹے میں ہونے کے باوجود ہمارے ایسے جوان الملا عمر ٹائپ کو اتنی آسانی سے جھٹک دیا۔دریں اثنا کش لگاتے اور شامی کباب کھاتے رہے۔یکایک انہوں نے تالی بجائی تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک خادم دست بستہ حاضر ہوا، موصوف نے ان کے، خادم کے، کان میں کچھ فرمایا جس کے اثر سے اس کی، خادم کی، آنکھیں سرخ اور سر کے بال کھڑے ہو گئے ۔ہم ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ ماجرا کیا ہے کہ خادمِ خاص کا ہاتھ ہمارے کالر پر تھاجس کے نتیجے میں ہم دروازے کے باہر۔پس اس روز سے ہم نے خواب دیکھنا ترک کر دیا۔ ویسے بھی حضرت پیر و مرشد صاحب کو خواب دیکھنے، کتابیں پڑھنے اور کھوج پرکھ کرنے والوں کی حالتَ زار دیکھ کر سخت صدمہ پہنچتا ہے۔کہتے ہیں کہ موصوف علم حاصل کرنے کے لئے چین جانے کی تاکید کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرما دیتے ہیں کہ وہاں جا کر پڑھنے مت بیٹھ جانا۔جو کچھ ہم نے سمجھایا بجھایا ہے وہی اصل ہے باقی سب نقل۔
پس اے عزیزو! حضرت کی مشترہ زہرہ عطارد اور مریخ کی گتھی ہمارے پلے نہ پڑنی تھی نہ پڑی۔لیکن ہم نے خوا ب نہ دیکھنے کا عزم بالجزم کر لیا اور پختہ نیت باندھ لی کہ حضرت کے حکم سے ایک انچ اِدھر نہ اُدھر کھسکیں گے۔اس کے لئے، خواب نہ دیکھنے کے لئے، ہم نے زبردست مشق بہم پہنچائی اور دنوں بلکہ ہفتوں تک نیند کی شری دیوی کا منہ نہیں دیکھا۔یہ ہمارے عزم و ہمت کا ہی کمال تھا کہ جو ں ہی ہماری پلکیں بھاری ہونے لگتیں ہم جھٹ سے ایک زوردار طمانچہ اپنے گال پہ جڑ دیتے بلکہ بعضے دفعہ تو ہم نے گاندھی جی کا مقولہ سچ ثابت کرنے کے لئے بعد از طمانچہ فی الفور خود کو دوسرا گال بھی پیش کر دیا اور ایسا کرکے ہم اپنا سا منہ لیکے رہ گئے کہ آخر ہاتھ اپنا تھا،گال اپنا، نیند اپنی تھی خواب اپنے۔چند روز تک تو یہ معمول رہا تاہم بعدازاں یہ دِقت آئی کہ اپنے ہی گال پہ طمانچے کی طاقت نہ رہی۔’ضعف میں طعنۂ اغیار‘ کا شکوہ بھی جاتا رہا۔حتیٰ کہ ہمیں بھی حضرت کی طرح اس ،طمانچہ کے لئے،ایک عدد خادمِ خاص رکھنا پڑا۔پس جونہی ہماری پلکیں بوجھل ہونے لگتیں،خادمِ طمانچہ زوردار انداز میں ایک دائیں اور دوسرا بائیں گال پر جڑ دیتے۔اس سے کچھ روز تو افاقہ رہاحتیٰ کہ پہلے ہفتے کی تنخواہ لینے کے بعد خادمِ طمانچہ بھی تائب ہو گئے اور ہمیں ایک ہونہار طمانچہ بردار سے محروم ہونا پڑا۔ بعد از تحقیق ان کے،طمانچہ بردار کے، متعلق معلوم ہوا کہ موصوف ایک سیاسی جماعت سے وابستہ تھے اور انہیں پارٹیاں بدلنے کی خاص مہارت ہے۔پس اے بادشاہو! ہم نے خود اپنی سی کوششیں جاری رکھیں لیکن حیف کہ ہم ناکام ہوئے اور نیند نے ہمارا ساتھ نہ چھوڑا۔بعضے دفعہ تو ایسا ہو اکہ نیند کی شری دیوی تشریف لائیں تو ہم نے دست بستہ دیوی جی کو پرنام کیا اور عرض کیا کہ دیکھئے محترمہ آپ تشریف لائیں، دیدہ و دل فرشِ راہ۔ لیکن معاف کیجئے ہم پہلے بتائے دیتے ہیں کہ ہم ہر گز ہرگز کوئی خواب نہ دیکھیں گے۔پہلے پہل تو یہ تدبیر کارگر رہی بعدازاں گاہ بہ گاہ خواب آنے لگے۔ایک دن ہم نے، خود ہم نے، خواب میں دیکھا کہ ہم، خود ہم، اپنے ایک ہمسائے کے ہاں دعوت میں شریک ہیں۔کچھ روز بعد معلوم پڑا ہاں دعوت ہی تھی۔یعنی ان کی،ہمسائے کی،دختر نیک اختر از خود والدین کا بوجھ کم کرتے ہوئے ایک چھابڑی والے سے بلاتکلف منکوحہ ہو گئیں اور بعدازاں شوہرِ نامدار سمیت والدین کی خیر و عافیت دریافت کرنے پہنچیں۔اس موقعہ پر بڑی پُر لطف ضیافت ہوئی۔ہم نے تو نہیں کھائی تاہم جنہوں نے کھائی انہیں دوبارہ کھانے کی للک ہے۔اللہ اللہ ! اسے کہتے ہیں جدت۔ایک اور خواب ہم نے دیکھا یعنی ہمارے یارِ طرحدار و ناہنجار حضرت اسکندریارزعفرانی کی ترقی ہوئی ہے۔جاگتے ہی نہار منہ ان کے گھر پہنچے کہ مبارک باد پیش کریں اور ان سے، یار زعفرانی سے، چائے پانے کا سابقہ حساب بھی چکتا کریں لیکن معلوم پڑاکہ زعفرانی کو تو مسلسل غیر حاضریوں پر معطل کر دیا گیا ہے۔اپنا سا منہ لیکر واپس لوٹے لیکن ایسے کچھ واقعات کے مشتہر ہونے سے نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے پاک و صاف کردار پہ حاسدوں نے خوب خوب کیچڑ اچھالا۔کم بخت ان دنوں بارشیں بھی بہت ہو رہی تھیں اس لئے جس کے ہاتھ میں جتنا آیا، کیچڑ، اس نے ہماری ذات پہ دے مارا۔حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ہمارا کردار آئینہ کی طرح ہے جس کی قلعی کھل چکی ہے۔
عزیزو! خواب تو آخر خواب ہیں۔یہ ’’ خواب مرتے نہیں‘‘ کہ مصداق جونہی موقعہ ملے جھٹ سے آنا شروع ہو جاتے ہیں اور حیرت انگیز طور پر پیر و مرشد کی پیش گوئی کے عین مطابق بلیک اینڈ وائٹ اور تاثیر و تعبیر میں بد ثابت ہوتے ہیں۔ابھی کچھ ماہ پہلے ہم نے ایک خواب دیکھا کہ ہمیں جاپان کا وزیر اعظم بنا دیا گیاہے۔نتیجہ یہ ہوا کہ اس میں، جاپان میں، زبردست زلزلہ آیا، ہمارے ان دوستوں نے جنہیں ہم اپنا یہ خواب سنا چکے تھے ہمیں خوب لعن طعن کی کہ بھئی تمہارے باعث یہ سب تباہی ہوئی ہے۔ہم خواب دیکھتے رہے اور دوستوں کو سناتے رہے ۔پس نتیجہ یہ ہوا کہ یاروں نے ہمیں منحوسِ خوابی قرار دیکر ہلمارا ناطقہ بند کر دیا جو ہنوز بند ہے۔دیکھئے کب کھلتا ہے۔
اب ہم نے عہد کر لیا ہے کہ خواب دیکھیں تو کسی کو سنائیں گے نہیں۔اب یہی دیکھئے کہ کل ہم نے ، خود ہم نے،خواب دیکھا کہ ہم، خود ہم، خواب دیکھ رہے ہیں۔ آگے کا احوال ہماری ایک پرانی نظم کے ایک بند میں ملاحظہ فرمائیں:
’’کوئی ایسے عالم میں
میری بند پلکوں پر
اپنے ہاتھ رکھتا ہے
اک شناسا خوشبو سے
اک کھنک کے جادو سے‘‘
.............قارئین! یہ بات ہم نے آپ کو اپنا سمجھ کر بتائی ہے۔لللہ اسے ہماری بیگم سے مت کہیے گا۔
skkarrar@gmail.com
 
اس کالم کو خالد کرار نے لکھا ہے۔
 
خواب پر بہترین اشعار پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

Sunday 13 July 2014

کچھ غزل کی ، کچھ چاند کی ‘چاندماری


آہا ! آج ہمیں رہ رہ کر اس مشاعرے کی یاد آرہی ہے جوہمارے اسکول میں برپا ہوا اور یہ ہماری زندگی کا سب سے پہلا مشاعرہ تھا جو ہم نے، خود ہم، نے سنا تھا۔اس کے بعد تو بس مشاعرے  اورہم اور باقی نام رہے اللہ کا۔اس مشاعرے کا ایک واقعہ اس طرح یاد ہے کہ ایک صاحب جنہیں ہم اس وقت شاعر سمجھے تھے ، اپنا نام پکارے جانے پر اسٹیج پر جلوہ افروز ہوئے اور ہوتے ہی،جلوہ افروز، یوں گویا ہوئے:
’’ایک غزل پیش خدمت ہے، عنوان ہے’’عشق ومحبت‘‘(قارئین سے گزارش ہے کہ عنوان کو اپنی سہولت کے عتبار سے بدل لیں ، ہمیں تو بھئی یہی مرغوب ہے)۔یہ کہتے ہی شاعر موصوف نے اپنے تخلیقی جوہر دکھانے شروع کیے۔وہ اپنے فن کا مظاہرہ اور ہم ان کے قد کاٹھ کا مشاہدہ کرنے لگے۔سیاہ رنگ،جسامت میں پہلوان،سفید قمیض اور سفید ہی پتلون۔ٹھوڑی پر ہاتھ بھر داڑھی اور باقی کھلا میدان۔ہلکی مونچھیں ،پچاس پچپن کے پیٹے میں رہے ہوں گے۔اُن کی شخصیت کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم مسلسل یہ سوچتے رہے کہ ہمارے اردو کے استاد اسلم فاروقی ہمیں آج تک غلط سبق پڑھاتے رہے کہ عنوان صرف نظم کا ہوتا ہے غزل کا نہیں۔
ہمیں اسلم فاروقی کی کم علمی، جہالت پیشہ وارانہ نا اہلی پر رہ رہ کر پہلے رنج اور بعدازاں بے حد غصہ آتا رہا۔اصل میں اسلم فاروقی اردو کے ایک اچھے استاد تھے،پہلے خوب محنت اور محبت سے پڑھاتے تھے بعدازاں انہیں صفات میں بے رحمی کا اضافہ کرکے خوب مارتے تھے۔لیکن خال خال ہی ان سے کسی کو مار پڑتی تھی کیونکہ ان کا انداز ِ بیاں خود دل میں اترتا تھا۔آدھا سبق ان کا لہجہ ہمیں از بر کروا دیتا تھا۔ آدھا ہم خود کر لیتے تھے کہ آخر ہمارا بھی تو کچھ فرض بنتا تھا۔اسلم فاروقی کی ہمارے دل میں بے حد عزت تھی۔اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ زبان ِ اردوئے معلی کے استاد تھے اور ہمیں بھی سوائے اردو کسی اور مضمون میں چنداں دلچسپی نہ تھی، ہاں البتہ سائنس کے مضمون میں سرتھامس الیو ایڈیسن اور نیوٹن کو استثنیٰ حاصل تھا۔وہ بھی اس لئے کہ اولالذکر نے بجلی کا بلب ایجاد کیا تھا،اور مرغی کے انڈوں پہ جا بیٹھے تھے۔مواخرالذکر یعنی سر نیوٹن نے بھی سنا ہے حرکت کے تین اصول دریافت کیے تھے۔حالانکہ یہ دونوں کافر، ملحد اور بے دین تھے، ہمیں یقین ہے کہ یہ دونوں جنت میں ہر گز ہرگز جانے کے نہیں لیکن پھر بھی ہم ان کی دریافتوں سے ازراہ ِ کرم استفادہ کرتے تھے اور ہیں۔یعنی’ گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن‘ بلکہ یہاں تو پیر کیا جوان و مرید تک روشن و رخشاں ہیں۔سر تھامس کے بلب سے ہم استفادہ کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ انڈے ہماری من پسند غذا ہیں۔اس لئے ایڈیسن سے ایک نسبت یہ بھی ہے۔البتہ ہم ان کی طرح سنکی ہر گز نہیں کہ مرغی کے انڈوں پہ جا بیٹھیں اور سوچیں کہ اس میں سے چوزے نکلیں گے۔یہ تو بھئی ملحدانہ سوچ ہے۔ہمارا کام انڈے کھانا ہے نہ کہ ان فضولیات میں پڑنا کہ اگر مرغی انڈوں پہ بیٹھ کر چوزے نکال سکتی ہے تو ہم کیوں نہیں؟۔اللہ ! معاذ اللہ!ہمیں اجتماعی و انفرادی طور یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم نے الحمدوللہ کبھی ایسی کافرانہ سوچ نہیں رکھی۔ورنہ ہم میں اور اغیار میں فرق ہی کیا رہ جاتا۔ایک وہ دوسرے صاحب تھے۔کیا نام تھا ان کا۔نیوٹن!یہ حضرت ایک روز سیب کے باغ میں پیڑ کے نیچے بیٹھے فکر ِ فردا (بھلا یہ بھی کوئی فکر ہے)میں مبتلا تھے کہ دفعتاً ایک سیب’دھپ‘ سے ان کے قریب آگرا۔موصوف سوچنے لگے یہ سیب اُوپر سے نیچے کی طرف کیوں آیا ہے نیچے سے اوپر کیوں نہیں گیا؟پس یہیں سے اُن کی پریشانیاں شروع ہوئیں،حتیٰ کہ انہوں نے حرکت کے تین اصول مع قوت ِ کشش دریافت کر لیے جنہیں ہم بھرپور استعمال کرتے ہیں لیکن بھئی ملحد آخر ملحد ہے۔آخر کار وہ بھی مر کھپ گیا، جنت میں البتہ وہ ہرگز جانے کا نہیں۔دیکھئے ایسے منفی سوچ والے لوگوں کا جنت میں کیا کام۔بھلا کوئی تُک بھی ہے۔ بھئی سیب اگر گرا ہے تو تم اسے کھائو۔تم تو پیڑ گننے لگے۔ہم ہوتے تو جھٹ سے سیب چٹ کر جاتے بلکہ اِدھر اُدھر دیکھ کر، کہ کوئی ہمیں دیکھ تو نہیں رہا،کچھ اور سیب بھی اُتار لیتے۔بہرکیف! مذکورہ دونوں کی ایجادات کا ہم بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں۔یہ جو ہم نے گھروں میں قمقمے لگا رکھے ہیں، جنہیں ہم جب چاہتے ہیں آن یا آف کر لیتے ہیں اور اندھیرے نیز اجالے کا مقدور بھر فائدہ اٹھاتے ہیں۔انڈے کھاتے ہیں، منفی سوچ سے پرہیز کرتے ہیں۔سر نیوٹن کے پہلے دو اصولوں سے ہمیں کوئی خاص علاقہ نہیں لیکن ان کا تیسرا اصول یعنی ’ہر حرکت کا ردِ عمل حرکت بھر ہوتا ہے‘ہمارے بہت کام آتا ہے۔(حرکت سے مراد کوئی بھی حرکت، جیسے عطار کے لونڈے کی حرکت،حزب ، اختلاف کی حرکت وغیرہ)
سر نیوٹن کا مذکورہ تیسرا اصول ہمارے بے حد کام آیا۔اس سے ہمیں پتھرائو، توڑ پھوڑ،احتجاج، جلسے جلوس، اسمبلیوں، جرگوں، کچہریوں اور ہڑتالوں میں بہت مدد ملتی ہے۔ہم پہلے ناپ تول کر ایسا عمل کرتے ہیں کہ اس کا ردِ عمل عمل بھر آئے اور پھر جب آجاتا ہے، ردعمل، تو باقی رہے نام اللہ کا!
ایک اور بات یاد آئی۔اُس زمانے میں یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ہمارے شعراء حضرات، بُت،صنم،چرخ،عشق، کافر وغیرہ کے چکروں میں کیوں رہتے ہیں۔ہر شاعر ان الفاظ کو کم از کم دو تین بار اپنی غزل میں ضرور دہراتا تھا،اس لئے ہمیں اِن الفاظ اور دیگر ایسے الفاظ کی عظمت کا بھرپور احساس ہونے لگا تھا۔ہم ایسے الفاظ کے معنی تلاش کرتے اور لغات میں ان پر خط کھینچ کر پہروں الفاظ اورمعانی کے باہمی ربط،ان کے صوتی و لسانی رشتے پر غور کرتے رہتے۔اس حوالہ سے ہم نے انتہائی جرائت مندی کا ثبوت دیتے ہوئے مولوی فیروز دین ڈسکوی مرحوم و مغفور کی’’ فیروز الغات‘‘(اکبری ،عکسی و اضافہ شدہ ایڈیشن) تک کو نہیں بخشا۔گھنٹوں مغز ماری کرکے ایسے الفاظ ڈھونڈ ڈھونڈ نکالے جو صوتی ، لسانی اور معنوی اعتبار سے ہمیں بے ربط لگتے تھے۔ہم نے تو ’’فیروز الغات‘‘ تک کو بدلنے کا عزم بالجزم کر لیا تھا تاہم چند در چند مجبوریوں کے باعث ایسا نہ ہو سکا۔
ایسے بہت سے االفاظ جن کے معانی ان کے، الفاظ کے، ساتھ میل کھاتے نظر نہیں آتے تھے، کی ایک طویل فہرست ہم نے مرتب کر رکھی تھی ارادہ تھا کہ اولین فرصت میں اس کام کو’ منطقی انجام‘ تک پہنچا کر دم لیں گے۔ایسے الفاظ میں ’چرخ‘ کہ جسے ہم نے کلاسیکی شعراء کے ہاں بکثرت پڑھا تھا۔ ہم جہاں بھی اسے، چرخ، کو پڑھتے فورا فیروز اللغات نکال کر اس کے معنی تلاشتے اور پھر آسمان کی طرف دیکھتے کہ ضرور اس میںکہیں کسی جگہ کوئی نہ کوئی چرخہ ہے جبھی تو اچھے بھلے آسمان کو چرخ کہہ دیا گیا۔اس وقت تک ہمیں یہی معلوم تھا کہ بقول دادی اماں چاند پر ایک بڑھیا بیٹھی صدیوں سے چرخا کات رہی ہے، سو ہم چرخ اور چرخے کی مناسبت سے نت نئی کہانیاں گھڑتے اور خود کو تسلی دیتے اور حضرت مولوی فیروز الدین ڈسکوی کے بھرم اور اپنے دل میں ان کی عظمت کے بُت کو ٹوٹنے سے بچاتے رہتے تھے۔لیکن افسوس بعدازاں یہ بھرم بھی جاتا رہا جب معلوم پڑا کہ کوئی نیل آرمسٹرنگ تو چاند سے ہو آئے ہیں،انہیں تو وہاں کوئی بڑھیا نظر نہیں آئی۔اگر آئی ہوتی تو وہ ضرور اس کا ذکر کرتے۔نیل کی اس حرکت کا سن کر ہمیں بے حد صدمہ ہوا۔پھر یہ کہہ کر دل کو تسلی دی کہ ان بد عقیدہ لوگوں کا کیا بھروسہ بھئی۔ممکن ہے بُڑھیا وہیں کہیں کسی کونے میں بیٹھی ہو،یا اس کمبخت نے بڑھیا کو دیکھا بھی ہو اور دانستہ ہمیں جھٹلانے کے لئے جھوٹ بول رہا ہو۔یہ بھی ممکن ہے کہ نیل چاند پر گیا ہی نہ ہو،کسی جزیرے پر مٹر گشتی کرتا رہا ہو اور چاند سے لوٹ آنے کا شوشہ چھوڑ دیا ہو۔عین ممکن ہے کہ بڑھیا وہیں ہو اور نیل کو نظر ہی نہ آئی ہو۔بدعقیدہ اور ملحد لوگوں کو اسرار و رموز کہاں نظر آتے ہیں۔ہمیں تو بالکل یقین نہیں۔ہو نہ ہو نیل آرمسٹرنگ کی اس کاروائی کے پیچھے کوئی سازش ہے۔اور خاص کر ہمیں بدنام کرنے کے لئے ویسے بھی اغیار ہمیشہ ہی موقعہ کی تلاش میں رہتے ہیں۔اب معلوم ہوا ہے کہ رُوسی خفیہ اداروں کا بھی یہی خیال ہے کہ نیل آرمسٹرنگ چاند پر گیا ہی نہیں۔اس بات میں ہمیں دم لگتا ہے۔رُوس بڑا اچھا ملک ہے،ہر برے وقت میں اس نے ہماری مدد کی ہے۔اس کے خفیہ ادارے بھی سنا ہے نیکو کار لوگوں سے بھرے پڑے ہیں۔اللہ اللہ!!

کالم نویس: شیخ خالد کرار
اردو کی کلاسیکی شاعری پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں 

Tuesday 1 July 2014

استاد اور نظم حقیقی


ایک روز ہم، خود ہم،بیٹھے سوچ رہے تھے کہ ایک طویل قامت،باریش بزرگ ایک عدد سفید کرتے پاجامے اور جناح کیپ سمیت ہمارے دفترتشریف لائے۔ہم نے انہیں، خود انہیں،بغور دیکھا اور لگے سوچنے کہ انہیں کہاں دیکھا ہے۔ یہی حالت ہماری آئینہ دیکھتے ہو جاتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ آئینے میں جو صاحب ہیں انہیں کہیں دیکھا ہوا ہے۔بعدازاں جب پہچان نہیں پاتے تو مرزا نوشہ کی طرح آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ جاتے ہیں۔اسی طرح اس روز بھی ہم نے سفید کرتے پاجامے اور جناح کیپ کو مع ایک عدد باریش کے اندر آتے دیکھا تو بعداز سوچ بچار بھی ہمیں کچھ معلوم نہ پڑا۔ویسے ہمیں دن کو کم ہی معلوم پڑتا ہے شب میں البتہ ہماری آنکھیں نورِ بصارت سے روشن ہو جاتی ہیں۔قارئین کرام،یہ بات ہم نے آپ سے کہی ہے براہِ کرم اسے کسی سے کہیے گا نہیں۔اس سے قبل ہم اسے، بات کو، صرف اپنی بیگم کو بتا چکے ہیں۔
ہاں تو بعدازدعا سلام موصوف نے موسم کے متعلق دریافت فرمایا۔ ہم نے کہا الحمدوللہ کئی روز سے مسلسل بارش ہو رہی ہے۔ندی نالے بھر چکے ہیں اور اب گلی محلے بھی قاسم خان کی نہر بننے والے ہیں تاہم موسم اچھا ہے۔پھر موصوف نے ہماری صحت کے متعلق دریافت فرمایا اور ہم نے کہا الحمدوللہ بخیروعافیت ہیں بس گزشتہ روز آم کھا لئے تھے ، سوچا گھٹلیوں کے دام ہیں، سو اس باعث دست کی شکایت ہے، دانت تب سے دست درازی کر رہے ہیں، تپش بھی ہے، چکر بھی آتے ہیں اور نزلے نے بھی آلیا ہے، لیکن الحمدوللہ باقی سب خیریت ہے۔بعداز دریافتِ حال و چال موصوف نے ہماری تعریف فرمائی اور ہمارے علم و ادب کے ڈنکے بجنے کا ذکر بڑے شوق سے فرمایا اور زبان و ادب کے تئیں ہماری خدمات میں ایک نہایت عمدہ اور فصیح تقریر فرمائی اور ہمیں تمام علومِ ظاہری و باطنی کا ماہر گردانا۔ہم بڑے انہماک سے سنتے رہے کہ وہ باتیں ہی اتنی اچھی کر رہے تھے۔سوچا کہ ان کی تمام گفتگو جو ہماری ذات و صفات کے حوالہ سے تھی،کو ریکارڈ کر لیا جائے تاکہ سند رہے اور یار دوستوں کی محفل میں ہمارے کام آئے،کہ جو آئے روز ہماری جہالت پہ قہقہے لگاتے ہیں اور عوام میں ہماری حماقتوں کے قصے چٹخارے لے لے کر بیان کرتے ہیں، لیکن افسوس ریکارڈر نہ ہونے کے باعث ایسا نہ ہو سکا۔بہر کیف! جب موصوف اچھی اچھی باتیں کرکے تھک چکے تو ہم نے عرض کیا بزرگو!اب ذرا تعارف بھی ہو جائے تو کیا حرج ہے۔اس پہ موصوف چند لمحے خلا میں ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہے پھر گویا ہوئے کہ اپنے بارے میں بیان کرنے میں مجھے چنداں دلچسپی نہیں۔میں شہرت کا بھوکابالکل نہیں۔میں تو درویش آدمی ہوں،نام فیروز دین اور دینا تخلصؔ ہے۔لوگ محبت سے اُستاد فیروز دیناؔ کہتے ہیں۔
یہ سنتے ہی ہماری روح فنا ہو گئی۔تو گویا موصوف شاعر بھی ہیں۔شاعروں سے ہمیں خدا واسطے کا بیر ہے۔شعر کہیں گے اور پھر سنانے کے لئے گلیوں، محلوں گھومتے پھریں گے، اور جب تک مکمل دیوان مع تازہ کلام نہ سنا لیں دم نہ لیں گے۔اس دوران اگر کوئی روکنے اور ٹوکنے کی کوشش کرے کہ حضرت ایک ذرا رکیں، میں فشارِ خون کی دوا کھا کر لوٹتا ہوں یا آج بچے کا ختنہ کروانا ہے، بازار سے مچھلی وغیرہ لانی ہے،تو بہت چیں بہ جبیں ہوں گے، اور چشمہ ناک پر ٹکا کر انتہائی خشمگیں نگاہوں سے آپ کو دیکھیں گے اور پھر آپ کی نا اہلی،جمالیاتی حس کی پژ مردگی، ذوق اور فنونِ لطیفہ کے تئیں آپ کے بیمار رجحان پہ آپ کو کوسیں گے اور بزرگوں کو ٹوکنے پر سخت سرزنش کریں گے اور دوبارہ غزلِ مسلسل شروع کر دیں گے۔اس دوران،شاعر اگر نشہ باز ہیں تو سگریٹ، پان، نسوار اور زردہ معہ تھوک کا سلسلہ بھی چلتا رہے گا۔اور اگر شاعر صوفی منش ہیں تو ہر پانچویں منٹ چائے کی فرمائش کریں گے۔ہمارے ساتھ بارہا ایسا ہو چکا ہے کہ صبح گھر سے کسی کام کے لئے نکلے۔راستے میں کوئی شاعر مل گئے پھر شام کو تھکے ہارے گھر پہنچے، کسی نے پوچھا کہاں تھے، جواب میں کوئی بہانہ گھڑ دیا۔حتیٰ کہ ایک بار ہمارے ایک عزیز دوست جو اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز رہے ہیں اور شعر کہتے ہیں، ہمیں سرِ راہ مل گئے۔ بعداز سلام دعا انہوں نے چائے کافی کے لئے پوچھا تو ہم نے بھی اخلاقاً ہاں کہہ دیا۔اس کے بعد جو ہوا اس کے متعلق’’ سچ کہوں گا اور سچ کے سوا کچھ نہ کہوں گا‘‘ کی رسم کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ بیان سنا جائے کہ چائے خانے کے ایک نیم تاریک سے گوشے میں ایک میلی سی میز کے قریب ہم جا بیٹھے۔موصوف نے چھوٹتے ہی چائے کا آرڈر دیا اور فرمانے لگے کہ کل وہ پہاڑ پر سیر کرنے گئے تھے۔قدرت کے حسین نظارے دیکھ کر ایک نظم ہوئی ہے، میں چاہوں گا آپ بھی سنیں، واہ کیا عمدہ نظم ہوئی ہے۔بالکل ولیم ورڈزورتھ اسٹائل کی،بلکہ اس سے آگے کی ہے۔میرا دعویٰ ہے کہ اس نظم کو صرف اور صرف آپ جیسا ادیب ہی بہتر سمجھ سکتا ہے یا پھر میں خود۔یہ کہتے ہی موصوف نے نظم شروع کی اور ہم نیم خوابیدہ انداز میں سنتے رہے کہ نظم ابھی ختم ہو جائے گی اور پھر ہم اپنی راہ لیں گے۔لیکن ورڈزورتھ اسٹائل کی نظم ختم ہوتے ہی موصوف نے گوئٹے کے شخصیت و فن پہ چھلانگ لگائی اور وہاں سے سیدھے حافظ و خیام تک جا پہنچے۔حافظ اسٹائل کی کچھ غزلیں۔ اور خیام انداز کی کچھ رباعیات۔اس دوران اپنی عادت سے مجبور بارہا انہوں نے بلند بانگ قہقہے لگائے، ہمارے ہاتھ پر زور سے ہاتھ مارا اور اپنے اشعار کی شرح میں الگ مصروف رہے۔اس کے بعد کا، عزیزو! ہمیں کچھ ہوش نہیں۔چائے آتی رہی اور وہ اپنے علم و فن معہ عروض و بیان، نیز فصاحت و بلاغت کے جوہر دکھاتے رہے، اتنا یاد ہے کہ چائے والا اور اس کا خادم دونوں دستہ بستہ حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ چائے خانہ کے بند ہونے کا وقت ہو چلا ہے، لہذا جان کی امان عطا کی جائے۔وہ دن اور آج کا دن، شاعر کو دیکھتے ہی ہمارے اوسان خطا ہو جاتے ہیں اور ہم دیکھتے ہی چپکے سے اپنی راہ لیتے ہیں۔شاعروں کے متعلق ہماری رائے ہے کہ یہ صرف کتابی ہی اچھے۔جونہی شاعر بہ نفسِ نفیس سامنے آئے اس کی عظمت کے سارے بت تراخ سے ٹوٹ جاتے ہیں اور عظمتِ فن ہیچ معلوم ہوتی ہے۔ہمارا تو یہی تجربہ ہے اس لئے آپ بھی احتیاط برتیں۔
ذکر تھا اُستاد فیروز دیناؔ سے ہماری ملاقات کا۔بعد از تعارف موصوف نے بتایا کہ میں ایسا ویسا شاعر نہیں، شاعرِ حقیقی ہوں۔ہم نے دریافت کیا اُستاد شاعرِ فطرت، شاعرِ غم،شاعرِ ملت،شاعرِ عشق تو ہم نے سنا ہے، یہ شاعرِ حقیقی کیا ہے؟اس پہ موصوف حسبِ عادت چند لمحے چپ رہے، ہمارے چہرے کی طرف ٹکٹی باندھ کر تکتے رہے اور جب خوب سیر ہو کر تک چکے تو بولے۔شاعرِ حقیقی کا مطلب یہ ہے کہ وہ شاعر جس میں عشقِ حقیقی ہو۔میں اُس ذات کے عشق کا شاعر ہوں۔ یہ کہتے ہوئے موصوف نے اپنی اُنگشتِ شہادت سے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور نعرہ لگایا’’ حق ھُو‘، الحق‘‘۔ہم نے پہلے بغور ان کی انگلی کا تعاقب کیا اور بعدازاں ان کے چہرے کا مشاہدہ۔شکل سے بھلے مانس لگتے تھے اور عمر کے اس دوراہے پر تھے جہاں عشقِ مجازی کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں ، کہتے ہیں عشقِ مجازی حقیقی کی پہلی سیڑھی ہے،تو غالباً استاد فیروز دیناؔ اس سے سیڑھی سے بحفاظت چڑھ آئے ہیں۔ہم نے ازراہِ خلوص و ہمدردی عرض کیا کہ یااُستاد ہم آپ کی کیا خدمت کر سکتے ہیں۔اُستاد بولے کہ ہمیں اپنا دیوان چھاپنا ہے۔یہ کہہ کر انہوں نے تاج عالم ڈائری سن انیس سو تہتر اپنے چولے سے نکال کر ہمارے سامنے رکھ دی۔اور ڈھونڈ ڈھانڈ کر ایک نظم نکالی اور ہمیں سنانے لگے۔نظم میں اور سب کچھ تھا بس نظم نہیں تھی اور یہی غالباً اس نظم کی خوبی تھی کہ وہ نظم نہیں تھی۔
اُستاد فیروز دیناؔ سے یہ ہماری پہلی ملاقات تھی۔ہم ممنون ہیں کہ اُستاد نے صرف ایک نظم پہ اکتفا کیا اورمعہ دیوان رخصت ہو لیے۔اُستاد کو دیوان چھپوانے کا حق ہے، کوئی پڑھے یا نہ پڑھے۔ لیکن ہمارے وہ عزیز دوست جو سرِ راہ ہمیں روک کر ہم پر غزل آزمائی کرتے ہیں ان سے ہم یہی کہتے ہیں کہ عزیزو! کیوں ہمارا وقت خراب کرتے ہو کہ ہمارے پاس سوا اس کے، وقت کے، کچھ ہے بھی نہیں۔

کالم نگار: شیخ خالد کرار
skkarrar@gmail.com

اردو کے اہم شعرا کے دواوین پڑھنے کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کریں۔